گرمیوں میں ٹھنڈے رہنے والے شام کے تاریخی مکانات کو خطرہ
شام دنیا کے ایک ایسے خطے میں واقعے ہے جہاں پر لوگوں کو سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن گرمیوں میں ٹھنڈے رہنے والے ان تاریخی مکانات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق مٹی کے یہ تاریخی مکانات شام کے شمالی حصے میں واقع ہیں، جہاں پران کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ 12 سال کی جنگ کی وجہ سے ان دیہات کو خالی کر دیا گیا ہے اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔
ان تاریخی مکانات کو“شہد کی مکھیوں کے گھر“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا کہ وہ صحرا کی تیز دھوپ میں ٹھنڈے رہیں، جبکہ ان کی موٹی دیواریں بھی سردیوں میں گرمی برقرار رکھتی ہیں۔
حلب کی گورنری میں ام عمودہ کبیرہ گاؤں وہ جگہ ہے، جہاں پر اس طرح کے مکانات میں لوگ طویل عرصے سے رہتے تھے، جو مٹی کے ٹوٹے ہوئے گھاس سے بنے تھے۔
وہاں رہنے والے محمود المھیج نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایک زمانے میں تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار رہائشی اور تقریباً 200 کچے مکانات تھے۔
اس حوالے سے ایک استاد کا کہنا ہے کہ خطے میں شدید عدم استحکام اور داعش جنگجوؤں کا قبضہ ہوجانے کی وجہ سے ہر کوئی وہاں سے چلا گیا۔
اس خطے میں جاری جنگ کی وجہ سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہے اور معاشی مشکلات شام کی ایک حقیقت بن چکی ہے۔
اسی حوالے سے پکے گھر مین رہنے والے المہیلج نے کہا کہ ہم میں سے 200 سے زیادہ لوگ واپس نہیں آئے ہیں۔ انہوں نے ایک گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک منہدم ہوجانے والی باقیات ہیں۔
واضح رہے کہ شام کی جنگ2011 میں شروع ہوئی اور تیزی سے ایک تنازعہ میں بڑھ گئی جس نے غیر ملکی طاقتوں کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ جس میں لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔
ال علی نامی شخص کا کہنا ہے کہ وہ یہ گھر لوگوں کو ٹھنڈک فراہم کرنے کے ساتھ ہی سردیوں میں گرم رہتے ہیں۔
Comments are closed on this story.