عورت کی ضرورت نہ مرد کی، سائنس دانوں نے لیب میں بچہ بنا لیا
کیا آپ نے کبھی ایسا کچھ سنا ہے کہ بنا ماں باپ کے کوئی بچہ پیدا ہوا ہو؟ کیونکہ ایسا پہلے ممکن نہیں تھا۔
لیکن اب سائنس اس نہج پر پہنچ گئی ہے بنا کسی عورت یا مرد کے بچہ بنایا جاسکتا ہے۔
سائنسی جریدے ”نیچر“ کے مطابق اسرائیل کے سائنس دانوں نے رحمِ مادر کے باہر ہی لیبارٹری میں اسٹیم سیلز سے انسانی ایمبریو (جنین) کے ”مکمل“ ماڈل تیار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
جنین ایک کثیر خلوی حیاتیات کی نشوونما کا ابتدائی مرحلہ ہے۔
محققین کے اس کارنامے نے بے اولادی، فارماسیوٹیکل ٹیسٹنگ اور ٹرانسپلانٹس میں ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔
لیبارٹری میں سٹیم سیلز کو ملا کر ٹشو کی چھوٹی گیندیں بنائی گئیں جنہوں نے خود کو ایسے ڈھانچے میں ترتیب دیا جو ایک سے دو ہفتے پرانے انسانی جنین میں پائی جانے والی تمام معلوم خصوصیات کی تھری ڈی تنظیم کی نقل کرتا ہے۔
اسرائیل کے ویزمین انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کی قیادت کرنے والے پروفیسر جیکب ہانا نے کہا، ’یہ پہلا ایمبریو ماڈل ہے جس میں ساختی کمپارٹمنٹ آرگنائزیشن اور 14ویں دن کے انسانی جنین سے شکلی مماثلت ہے۔‘
دو ہفتوں میں ہی خلیوں کی یہ گیندیں تقریباً نصف ملی میٹر چوڑی ہوگئی تھیں۔
محققین کو امید ہے کہ وہ جلد ہی انسانی ترقی کے ابتدائی مراحل اور اسقاط حمل کی نامعلوم وجوہات جان سکنے کے قابل ہوں گے۔
ہانا نے کہا کہ بیمار مریضوں کی جلد کے خلیوں سے ماڈل ایمبریو کی تخلیق کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماڈل ایمبریو کو ایک ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک بڑھائیں اور وہ ایسے اعضاء تیار کرنا شروع کر دیں گے جنہیں مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربہ کا ایک اور مقصد جو سائنس دانوں کے ذہن میں ہے وہ یہ کہ جو حقیقی انسانی جنین پر دوائیوں کے ممکنہ اثرات کا اندازہ لگایا جائے، چونکہ حاملہ خواتین کو اکثر کلینیکل ٹرائلز سے خارج کر دیا جاتا ہے، اس لیے ڈاکٹر حاملہ خواتین اور بچوں پر کچھ عام علاج کے ضمنی اثرات سے ناواقف ہیں۔
تاہم، ہانا کا کہنا ہے اسے حمل کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے باوجود، سائنس دانوں نے حمل کے ٹیسٹ کا استعمال کیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ماڈل ایمبریوز کتنی اچھی طرح سے بڑھ رہے ہیں۔
جب ڈش سے سیال کو ٹیسٹ سٹرپ پر ڈالا گیا تو اس کا مثبت نتیجہ نکلا۔
ڈاکٹر پیٹر رگ گن جو کیمبرج کے قریب بابرہام انسٹی ٹیوٹ میں جنین کی نشوونما کا مطالعہ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کام ”متاثر کن“ اور ”اہم“ تھا، لیکن انہوں نے نوٹ کیا کہ ابتدائی انسانی جنین کی تمام خصوصیات کو مکمل طور پر نقل نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر نال کی جگہ تو موجود تھی لیکن مناسب طریقے سے منظم نہیں تھی۔
رگ گن نے کہا کہ ’ اگر رحم میں منتقل کر دیا جائے تو بھی یہ ایمبریو ماڈل تیار نہیں ہو سکے گا، کیونکہ یہ رحم کے استر سے منسلک ہونے کے لیے درکار مرحلے سے نہیں گزرا۔’
Comments are closed on this story.