مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
بھارتی سپریم کورٹ نے نئی دہلی کی مقبوضہ کشمیر پر براہ راست حکمرانی کے خلاف درخواست پر سماعت مکمل کرلی ہے۔
2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے براہ راست مرکز کے زیر تسلط دے دیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو معطل کر دیا تھا۔ جو اس متنازع علاقے کو محدود خود مختاری کی ضمانت دیتا تھا۔
یہ ایک اچانک کیا گیا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مظاہرے اور گرفتاریاں ہوئیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچور کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ اب اس بات پر غور کرنے کے لیے تیاری کر رہا ہے کہ آیا اس آئینی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ سے توثیق کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود یہ اقدام قانونی تھا یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومتی وکلاء، مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے آئینی ماہرین اور اس اقدام کو چیلنج کرنے والے دیگر افراد کی جانب سے 16 دنوں تک دلائل سنے۔
خیال رہے کہ بھارت نے کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں 50 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان خطے پر کنٹرول کے لیے تین جنگیں ہو چکی ہیں اور 1989 سے مسلم اکثریتی علاقے میں بھارتی حکمرانی کے خلاف آزادی کی تحریک میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی معطلی نے دوسری جگہوں سے ہندوستانیوں کو یہاں زمین خریدنے اور سرکاری ملازمتوں کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی ہے، اس پالیسی کو ناقدین نے ”آبادکار استعمار“ کے طور پر مسترد کیا۔
بہت سے رہائشیوں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام نے اس کے بعد سے میڈیا کی آزادیوں اور عوامی مظاہروں کو سختی سے روکا ہے۔
مودی حکومت نے عدالت میں فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی سے شورش زدہ علاقے میں ”امن، ترقی اور خوشحالی“ آئی ہے۔
اس علاقے پر نئی دہلی کی حکمرانی کو مستحکم کرنا طویل عرصے سے مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا کلیدی نکتہ رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں ہندوستانی فوجیوں اور آزادی پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپوں کی تعدد میں نمایاں کمی آئی ہے، کیونکہ ہندوستان اس علاقے پر اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
Comments are closed on this story.