Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

شام میں مہنگائی کیخلاف مظاہروں کا رخ صدر بشار الاسد کی طرف مڑ گیا

معاشی بحران کی وجہ سے شامی کرنسی تیزی کیساتھ ڈالر کے مقابلے میں گررہی ہے
شائع 02 ستمبر 2023 03:11pm
تصویر/ اے ایف پی
تصویر/ اے ایف پی

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہرہے کیے جا رہے ہیں ساتھ ہی ان سے اقتدار چھوڑنے کا کہا جارہا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی شام میں سینکڑوں لوگوں نے شامی صدر سے اقتدار چھوڑنے کے لیےمظاہرے کیے ہیں، جو تقریباً دو ہفتوں سے جاری ہیں لیکن ان کا رخ بشار الاسد کی جانب مڑ گیا ہے اور سیاسی تبدیلی کے لیے نئے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔

ملک سے نکل جاؤ، شام کو آزاد کرو جیسے نعرے ملک میں گونج رہے ہیں، اس حوالے خبر رساں ادارے روئٹرز بتایا کہ جمعہ کے روز سویڈا شہر میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا جہاں عوام نے شدید نعرے بازی کی۔

شام ایک شدید معاشی بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اس کی کرنسی تیزی کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں گررہی ہے۔

گزشتہ ماہ ڈالر کے مقابلے میں شامی پاؤںڈ ساڑھے 15ہزار کی ریکارڈ کم ترین سطح پر گرگیا ہے، جبکہ 12 سال قبل شام میں جنگ کے آغاز پر ڈالر کے مقابلے میں 47 پاؤنڈ پر تجارت کی تھی۔

حکومت کے زیر کنٹرول صوبے سویڈا میں ایک مذہبی اقلیت ڈروز ہے، جو شامی صدر اور شامی اپوزیشن کے درمیان تنازع میں زیادہ تر غیر جانبدار رہی تھی اور یہ احتجاج غیر معمولی ہے۔

حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں حکومت پر کھلم کھلا تنقید شاذ و نادر ہی ہوتی تھی، لیکن جیسے جیسے معاشی صورتحال بدتر ہوئی ہے، عوام میں بے اطمینانی پھیل گئی ہے۔

مظاہروں پر ڈروز قیادت کے اندر واضح اختلافات کے باوجود جمعہ کا ٹرن آؤٹ بڑا تھا۔ کچھ ڈروز شیخوں نے مظاہرین کی جانب سے الاسد کو اقتدار چھوڑنے کے مطالبات پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ سماجی اقتصادی صورتحال میں کسی بھی طرح کی بہتری بات چیت کے ذریعے آنی چاہیے۔

جمعہ کو متعدد مظاہرین دوسرے صوبے درعا میں بھی جمع ہوئے، جہاں سے 2011 کے احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔ ان کے پاس شام کی بغاوت کا تین ستارہ جھنڈا اور ساتھ ہی ساتھ اسد کے اہم اتحادی ایران کے کردار پر تنقید کرنے والے نشانات بھی تھے۔

واضح رہے کہ2011 میں پُرامن مظاہروں کو شامی حکومت کی جانب سے پُرتشدد ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں ایک جنگ شروع ہوئی، جو آج تک جاری ہے اور اس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔

حالیہ برسوں میں فرنٹ لائنز بڑی حد تک خاموش رہی ہیں کیونکہ شامی حکومت نے روس اور ایران کی حمایت سے حزب اختلاف کو شمال مغرب میں پیچھے دھکیل دیا تھا۔

جمعرات کو ساحلی صوبے طرطوس میں کچھ رہائشیوں نے چھوٹے پوسٹ کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں لکھا تھا کہ ”شام ہمارا ہے، حکمران پارٹی کا نہیں“۔

Syria

bashar al assad