Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ادھیڑ عمر ملازمین نکال کر ایلون مسک نے ناانصافی کی، مقدمہ خارج کرنے سے جج کا انکار

کمپنی خریدنے کے وقت ایلون نے عمر رسیدہ ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دیا تھا
شائع 31 اگست 2023 11:25am
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک - تصویر: روئٹرز/ فائل
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک - تصویر: روئٹرز/ فائل

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک کیخلاف کیلیفورنیا کے ایک وفاقی جج نے اس مقدمے کو خارج کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال کمپنی خریدنے کے وقت ایلون نے عمر رسیدہ کارکنوں کو ملازمتوں سے نکال دیا تھا۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج سوزن ایلسٹن نے منگل کے روز کہا کہ مجوزہ کلاس ایکشن کے مدعی جان زیمن نے کافی ثبوت فراہم کیے ہیں کہ بڑے پیمانے پر برطرفیوں کا عمر رسیدہ ملازمین پر زیادہ اثر پڑا ہے ۔

زیمان نے دعویٰ کیا کہ ایکس نے 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 60 فیصد ملازمین اور 60 سال سے زائد عمر کے تقریبا تین چوتھائی ملازمین کو فارغ کیا جبکہ 50 سال سے کم عمر کے 54 فیصد ملازمین کو فارغ کیا گیا۔

جج نے فیصلہ سنایا کہ کام کی جگہ پر عمر کے تعصب پر پابندی لگانے والا امریکی وفاقی قانون مدعی کو طبقاتی کارروائی میں نام نہاد ”متضاد اثرات“ کے دعوے لانے کی اجازت دیتا ہے، ایک ایسا مسئلہہے جس نے عدالتوں کو تقسیم کیا ۔

جج نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ایکس نے جان بوجھ کر عمر رسیدہ کارکنوں کو ملازمت سے نکالنے کے لیے نشانہ بنایا، لیکن زیمن کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے اور ترمیم شدہ مقدمہ دائر کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔

زیمن کے وکیل شینن لیس ریورڈن کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ ان دلائل کی توثیق کرتا ہے جو ہم دے رہے ہیں کہ امتیازی سلوک کے دعوے آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘

ایکس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پرکوئی جواب نہیں دیا۔

یہ مقدمہ ان درجنوں افراد میں سے ایک ہے جن کا سامنا مسک کی جانب سے گزشتہ سال نومبر سےاُس وقت کے ٹوئٹر کی نصف افرادی قوت کو فارغ کرنے کے فیصلے کے بعد کیا جا رہا ہے۔

ان مقدمات میں مختلف دعوے شامل تھے ، بشمول یہ کہ ایکس نے ضروری پیشگی اطلاع کے بغیر ملازمین اور ٹھیکیداروں کو فارغ کردیا اور مسک نے ریموٹ کام کی اجازت دینے سے انکار کرکے اور ملازمین کو زیادہ ”سخت گیر“ ہونے کا مطالبہ کرکے معذور کارکنوں کو نکال دیا۔

کم از کم دو مقدمات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمپنی نے سابق ملازمین کو 50 0 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ کی تنخواہ ادا کرنی ہے۔

وکیل لیس ریورڈن ٹوئٹر کے تقریبا 2000 سابق ملازمین کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے ثالثی میں کمپنی کے خلاف اسی طرح کے قانونی دعوے دائر کیے ہیں۔

ٹویٹر

Elon Musk