پنجاب انتخابات: ’عدالت آئین کی خلاف ورزی پرمداخلت کرے گی‘ الیکشن کمیشن کی درخواست خارج
اسلام آباد: پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست خارج کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ کیس کی سماعت کی، بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن نے تیاری کے لئے عدالت سے مزید ایک ہفتے کی مہلت طلب کرلی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا مؤقف بتائیں ہم بھی کیس کا جائزہ لیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ میں نے کیس میں اضافی گراؤنڈز تیار کیے ہیں، سب سے اہم سوال الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار کا تھا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 میں ترمیم ہوچکی ہے جس کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ وکیل صاحب ذہن میں رکھیں یہ نظرثانی کیس ہے، مرکزی کیس الگ تھا۔
سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ کا پنجاب انتخابات سے متعلق تفصیلی فیصلہ ملا جس کی روشنی میں کچھ اضافی دستاویزات جمع کرانا چاہتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ جوفیصلہ آیا وہ کیس ختم ہوچکا، جواب ہمارے ساتھ عدالت میں ہی پڑھیں۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا نظرثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں، انتخابات کی تاریخ دینے کا مقدمہ پہلے ہی ختم ہوچکا ہے، نظرثانی کیس میں جونکات اٹھانا چاہتے ہیں وہ بتائیں، مگر اس میں آپ دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے، لہٰذا یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں غلطی کہاں ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین الیکشن کیشن کو اختیار نہیں ذمہ داری دیتا ہے،صدر کی تاریخ تبدیل کرنےکا معاملہ بڑا اہم قانونی نقطہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی اختیارات کو کمیشن نے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا دلائل دے رہے ہیں، کبھی ادھر کبھی ادھرجا رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ تیسری مرتبہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے ذمہ داری کی روشنی میں اختیارات کا استعمال کرنا ہے، کمیشن کی ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہوں گے مگر الیکشن کمیشن کہتا ہے تاریخ تبدیل کرنےکا اختیار ہے، البتہ عدالت الیکشن کمیںشن کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتی اور نظر ثانی میں دوبارہ دلائل کی اجازت نہیں۔
عدالت نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں دیتا، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے کی حد پرکچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی معروضات کے بارے کچھ غلطیاں ہیں۔
عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 218 شق تین کےمطابق الیکشن کمیشن کوانتخابات ”آرگنائز اورکنڈکٹ“ کرانے ہیں، الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائزر اور کنڈکٹ 90 روز کی آئینی مدت میں کرانے ہیں، الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکیں؟
عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ کمیشن پانچ سال تک یقینی نہیں بناتا کہ انتخابات شفاف ہو سکیں گے تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ یہ میری دلیل نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب بھی کہیں آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو عدلیہ مداخلت کرے گی کیونکہ آئین کسی کی جاگیر نہیں، کوئی بھی ادارہ آئین سے تجاوز نہیں کرسکتا اور آٸین کے تحت الیکشن کمیشن تین ماہ میں انتخابات کروانے کا پابند ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کوحل تجویز کیا تھا، فیصلے میں کہا تھا الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرا سکتا تو عدالت میں درخواست دائر کرے، الیکشن کمیشن کو اچھا لگا یا برا لیکن انتخابات 90 روز سے آگے لے جانے کا کوئی اختیار نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ممکن ہے عدالت اور الیکشن کمیشن مختلف پوزیشن لے، لیکن موجودہ کیس نظر ثانی کا ہےاس کا دائرہ محدود ہے، اس کیس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حل تجویز کیا تھا۔
بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے الیکشن کمیشن وکیل کے دلائل سننے کے بعد پنجاب انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کیخلاف درخواست خارج کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو حکم دیا تھا کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرائے جائیں جس کے بعد الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائرکی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مٸی کو انتخابات کرانے کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے ذمہ داری پوری نہیں کر سکا، عدالت کا شارٹ آرڈر برقرار ہے، الیکشن کمیشن کا اہم کام انتخابات کروانا ہے۔
Comments are closed on this story.