بجلی بلوں پر رعایت کی گنجائش نہیں، مراعات یافتہ طبقے کی سہولتیں واپس لینے پر غور کر رہے ہیں، وزیر خزانہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے نگراں حکومت سے بجلی بلوں میں ریلیف سے متعلق تحریری پلان مانگے جانے کے بعد نگراں وزیر خزانہ نے بجلی بلوں میں ریلیف دینے کے معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پریز سے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بات چیت کی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے حوالے سے وزارت خزانہ سے تحریری پلان مانگ لیا، وزارت خزانہ آج شام کو ہی پلان بھیج دے گی۔
بجلی بلوں پر وزیر خزانہ کا اظہار بے بسی
سینیٹرسلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہمارے پاس لامحدود اختیارات ہیں، ہمارے پاس محدود اختیارات ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے۔
نگراں وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ منتخب حکومت نے آئی ایم ایف سے ایڈجسٹمنٹس کا معاہدہ کیا، نگران حکومت اس ضمن میں کچھ نہیں کرسکتی۔
کابینہ نے نوٹ کیا کہ نگراں سیٹ اپ صارفین کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتا، لیکن بلوں کو چار سے چھ قسطوں میں تقسیم کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ قسطوں کی صورت میں بھی حکومت کو آئی ایم ایف سے پیشگی اجازت لینا ہوگی۔
شمشاد اختر نے کہا کہ سرکاری ادارے ناقابل برداشت نقصان کا شکار ہیں، انہوں نے نجکاری کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان کے ٹیکس ریونیو کا 70 فیصد قرضوں سے نجات پر خرچ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی کم آمد اور زیادہ اخراج کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے۔
شمشاد اختر نے کہا کہ، ’اگلی منتخب حکومت کو خود مختار پاور پروڈیوسرز کے ساتھ دوبارہ معاملات طے کرنے پڑیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو ڈالر کی آمد رک جائے گی اور معاشی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے علاوہ دیگر اقدامات بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی آمدنی کم ہے جبکہ اخراجات زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے، ہم نے ہر وہ کام کیا ہے جس سے معیشت کمزور ہو‘۔
شمشاد اختر نے مزید کہا کہ مراعات یافتہ طبقے سے سہولیات واپس لینے کی تجویز زیر غور ہے اور ایک ہفتے بعد معیشت پر کمیٹی کو بریفنگ دی جائے گی۔
دوسری جانب سینیٹ کامل علی آغا نے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی بلوں میں عائد ٹیکسوں کو فی الفور واپس لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک جگہ چوری ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے جولائی اور اگست کے بجلی بلز قسطوں میں ادا کرنے کی اصولی منظوری دی ہے، اس کا حتمی فیصلہ آئی ایم ایف سے منظوری کے بعد نافذالعمل ہوگا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے سبب حکومت بجلی کے نرخوں میں کمی تو نہیں کر سکتی لیکن بل قسطوں میں وصولی کرنے کو تیار ہے۔
یاد رہے کہ بجلی کے بلوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کے باعث ملک بھر میں بل جلا کر مظاہرے کیے جارہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بجلی کی قیمت میں فوری طور پر کمی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں:
کراچی: تاجر برادری کا مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کیخلاف ہڑتال کا اعلان
حال ہی میں بجلی کے بلوں میں اضافے اور ٹیکسوں کو کےخلاف کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ سڑکوں پراحتجاج کرکے حکومت کو ٹیکس واپس لینے پرمجبور کریں۔
Comments are closed on this story.