بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے جموں کشمیر کی ریاست بحال کرنے کا ٹائم فریم مانگ لیا
بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے جموں کشمیر کی ریاست بحال کرنے کا ٹائم فریم مانگ لیا ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنا عارضی ہے، جس کے بعد عدالت نے ریاست کا درجہ بحال کرنے کرنے کیلئے ٹائم فریم مانگ کیا۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کو چیلنج دینے والی درخواستوں کی سماعت منگل کو دوبارہ شروع ہوئی تھی۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی کہ آئین میں کوئی بھی تبدیلی جو ”سب کو برابر لاتی ہے اسے کبھی بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے“۔
دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے ایس جی مہتا نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لفظ ’بھائی چارہ‘ کو مؤثر معنی دیا جانا چاہیے۔
درخواست گزاروں کی اس دلیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہ آرٹیکل 370 کو مستقل مانا جانا چاہئے ایس جی مہتا نے کہا ، “یہ دلیل سب سے پہلے مدھاراؤ سندھیا معاملے میں سامنے آئی تھی جب حکومت نے ”پریوی پرس“ کو واپس لے لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ”شاہی ریاستیں“ اب موجود نہیں ہیں اس لئے پرائیوی پرس کا وجود بھی ختم ہو گیا ہے۔
دریں اثنا چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے پیر 28 اگست کو کہا کہ آرٹیکل 35 اے نافذ کرکے ملک کے کسی بھی حصے میں مساوات کے بنیادی حقوق، پیشہ پر عمل کرنے کی آزادی اور دیگر کو عملی طور پر چھین لیا گیا ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی پر سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی دلیلیں سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا کہ جمہوریت کی بحالی ضروری ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کا 2019 کا اقدام سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
خصوصی بینچ کی تشکیل
مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کیخلاف بھارتی سپریم کورٹ نے جولائی کے آغاز میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چور کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت 11 جولائی کو شروع کی تھی۔
آئینی بینچ کے دیگرجسٹس بی آرگاوائی، جسٹس ایس کے کول چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور، جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔
آرٹیکل 370 سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ فراہم کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سامنے 20 سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں، جس میں مرکزی حکومت کے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی، اور سابقہ ریاست کو بعد میں دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی سے متعلق مقدمے کی سماعت میں تاخیر کو کئی مرتبہ جموں و کشمیر کے سیاسی جماعتوں نے سیاسی سازش قرار دیا ہے اور پاکستان بھی مقبوضہ جموں و کشمی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی مذمت کرتا ہے۔
پس منظر
پانچ اگست 2019 کو بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی انتہا پسند حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا تھا جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔
آرٹیکل 370 اور 35 اے جنوری 1950 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بنائے قانون تھے اور اس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کو لوک سبھا (بھارتی پارلیمان) میں چار سیٹیں الاٹ کی گئی تھیں۔ ان قوانین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو اندرونی خود مختاری دی گئی اور مرکز کو صرف ”دفاع، مواصلات اور بیرونی معاملات“ سے نمٹنا تھا۔
آرٹیکل 370 (اصل میں 306-اے) کا مسودہ نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر گوپالسوامی آئینگر نے تیار کیا تھا۔
آرٹیکل 370 درحقیقت بھارتی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ایک فراڈ تھا جس نے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی۔ اس نے کشمیر کو اپنے قوانین بنانے، دفاع و خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں خود فیصلہ کرنے کی اجازت تو دی، لیکن یہ صرف خطے کو کھوکھلی خودمختاری کا احساس دلانے کا حربہ تھا۔
اس قانون نے مقامی مقننہ کو ”مستقل رہائشیوں“ کو شناخت فراہم کرنے کی اجازت دی، جس کا بظاہر مقصد علاقے کی آبادی کا تحفظ کرنا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کشمیر صرف کشمیریوں کے لیے رہے، جس میں ملازمت، اسکالرشپ اور نجی ملکیت سے متعلق مراعات شامل ہیں۔
یہ قانون 1954 میں صدارتی حکم کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا اور یہ آرٹیکل 370 کے تحت آتا ہے۔
5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی تنسیخ
موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے سات دہائیوں سے اسے حاصل خصوصی حیثیت سے محروم کر دیا تھا۔
بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا۔
یہ اقدام واضح طور پر ایک غیر آئینی تھا کیونکہ آرٹیکل 370 میں ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ آئین بنانے والے ہر شق کو آئینی اسمبلی میں پیش کریں اور وہاں سے اسے منظور کرایا جائے۔
Comments are closed on this story.