Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

پاکستان کے سرحدی گاؤں کی مشہور برفی بھارتی فوجیوں کی بھی پسندیدہ

لوگوں کو ایک وقت میں صرف 'ایک کلو' برفی مل سکتی ہے
اپ ڈیٹ 29 اگست 2023 01:55pm
تصویر: فائل فوٹو
تصویر: فائل فوٹو

کھانے کے شوقین لوگ ہر وقت ایسے مقامات کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں ان کی من پسند اشیاء میسر ہوں، پھر اس مقصد کیلئے دور دراز ہی کیوں نہ جانا پڑے کیونکہ کہتے ہیں نا کہ، ’شوق کا کوئی مول نہیں‘۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کے باگڑیاں گاؤں میں مٹھائی کی دکان پر بننے والی برفی کا بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہے۔

یہاں آنے والوں کو ایک وقت میں صرف ’ایک کلو‘ برفی ہی فروخت کی جاتی ہے تاکہ دیگر کو مایوس نہ لوٹنا پڑے۔

بی بی سی اردو کے مطابق یہ برفی کھانے شوقین افراد اٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ناہموار راستوں سے گزرتے ہوئے اس جگہ پہنچتے ہیں جبکہ انہیں یہ علم بھی ہے کہ ایک کلو سے زیادہ مٹھائی نہیں ملے گی۔

زیرو لائن جہاں پاکستان اور بھارت کی ورکنگ بارڈرملتی ہے، کے قریب ایک باگڑیاں گاؤں ہے، جوقیامِ پاکستان سے پہلے ہندوستانی شہر گورداسپور کا ایک حصہ تھا اور شکر گڑھ گورداسپور کی ایک تحصیل تھی۔

مزید پڑھیں:

پراسرار قبرستان سے ’ویمپائر‘ بچے کی باقیات دریافت

تاریخ میں پہلی بار انسانی دماغ سے زندہ کیڑا برآمد

نسیم شاہ کا اروشی روٹیلا کو دلچسپ پیغام

مقامی لوگوں کے مطابق موجودہ صورتحال پُرامن ہے لیکن بھارتی فوج باگڑیاں اور اس کے آس پاس کے علاقے پر مارٹر گولے داغتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے۔

ان حالات کے باوجود کھانے کے شوقین افراد مٹھائی کھانے کے لیے اس دکان پر آتے رہے ہیں۔

اگرچہ تحصیل شکر گڑھ سے باگڑیاں گاؤں میں اس مٹھائی کی دکان کا فاصلہ صرف 20 کلومیٹر ہے، لیکن تنگ راستوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے وہاں تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

اس مقام سے انڈیا کے سرحدی گاؤں اور انڈین ورکنگ باؤنڈری کے ٹاور نظر آتے ہیں۔

یہ کاروبار دکان کے مالک محمد ریاض اور ان کے چھوٹے بھائی چلا رہے ہیں۔

سورج نکلنے سے پہلے محمد ریاض خود بھینسوں کا دودھ دھونے سے اپنا کام شروع کرتے ہیں، پھر مٹھائی بنانے کا اصل عمل شروع ہو تا ہے۔ یہ دکان صرف برفی ہی بناتی ہے۔

محمد ریاض بھینس کا دودھ دھونے کے بعد برفی بنانے کا کام خود ہی کرتے ہیں۔

چالیس کلو دودھ کو ایک کلو چینی کے ساتھ ملا کر برفی بنائی جاتی ہے۔ پہلے اس دودھ کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ 40 کلو دودھ 7 سے 8 کلو تک رہ جائے اور پھر اس میں چینی ڈال دی جاتی ہے۔

محمد ریاض کے مطابق وہ اس برفی کے لیے صرف بھینس کا دودھ ہی استعمال کرتے ہیں کیونکہ گائے کے دودھ کی رنگت زرد ہوتی ہے جو برفی کو اچھی شکل دیتی ہے۔

ان کے بقول انہوں نے ایک وقت میں گاہک کو ایک کلو برفی دینے کا اصول اس لیے اپنایا ہے تاکہ کوئی گاہک خالی ہاتھ نہ جائے۔

محمد ریاض کے مطابق عام دنوں میں ایک گاہک کو ایک کلو برفی ملتی ہے لیکن عید جیسے خاص مواقع پر ان کو صرف آدھا کلو یا اس سے کم برفی دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تہوار کے موقع پر وہ اپنے چھوٹے بھائی کو دورکھڑا کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی گاہک دوبارہ نہ آئے۔

محمد ریاض نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باعث ورکنگ باؤنڈری پر گولہ باری کے ماضی کے واقعات نے ان کی اس دکان پر خاصا اثر ڈالا تھا۔

تاہم جب شیلنگ زیادہ ہوتی تھی تو کم لوگ ان کی دکان میں آتے تھے جس کی وجہ سے اگر دودھ بچ جاتا تھا تو وہ خراب ہو جاتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ کرتارپور میں آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے یہاں لوگ ان سے مٹھائی لے کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیز فائر کے دوران جب تہوار ہوتے ہیں تو پاکستان کی طرف سے اُن کی دکان کی مٹھائی ہی پاکستانی فوجی انڈین فوجیوں کو دیتے ہیں۔

محمد ریاض کے مطابق اس علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت غیر ملکیوں کی ہے جو بیرونِ ملک مقیم اپنے ہندوستانی اور عرب دوستوں کے لیے دعوتیں کرتے ہیں جب وہ چھٹیوں کے دوران پاکستان آتے ہیں۔

محمد ریاض کے مطابق ان کی اس مٹھائی کی فروخت کا 70 فیصد حصہ غیر ملکیوں کا ہوتا ہے۔

lifestyle

Sweets

Pakistani Culture

barfi