Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

عمران خان کی سزا معطلی پر سماعت ملتوی، ٹرائل کورٹ کی غلطی نہیں دہرائیں گے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

الیکشن کمیشن کے وکیل بیماری کے سبب پیش نہیں ہوئے۔
اپ ڈیٹ 25 اگست 2023 09:33pm
جسٹس عامر فاروق۔ تصویر اسلام آباد ہائیکورٹ
جسٹس عامر فاروق۔ تصویر اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی 3 سال قید کی سزا معطلی سے متعلق درخواست کی سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا پرملتوی کردی جن کے معاون نے عدالت کو بتایا کہ وہ علیل ہیں۔

عدالت نے بعدازاں تحریری حکم نامے میں کہا کہ اگر پیر کو بھی وکیل صحت یاب نہ ہوں الیکشن کمیشن متبادل انتظام کرے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا کیخلاف اپیل پرسماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق اورجسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔

جمعہ کی سماعت بغیرکسی کارروائی کے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی استدعا پر ملتوی کی گئی۔

معاون وکیل نے کہا کہ امجد پرویز دستیاب نہیں، ڈاکٹر نے انہیں دو دن کا آرام تجویز کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ ضمانت کا معاملہ تھا، دس پندرہ منٹ میں دلائل مکمل ہو جاتے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ بیس دن سے ایک شخص اندر ہے، معاون وکیل کا بھی وکالت نامہ موجود ہے، وہ دلائل دے سکتا ہے، آپ کا جونئیر جج جیل بھیج رہا ہے، یہ پیش نہیں ہورہے تو کیا آپ سزا معطل نہیں کرسکتے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج ہم اس کیس کے لیے بیٹھے ہیں، ہم بھی وہ کام کرسکتے ہیں جو ٹرائل کورٹ نے کیا ہے، ہم نے سسٹم کو چلانا ہے، جو ٹرائل کورٹ نے کیا ہے وہ ایڈمنسٹریٹیو سائیڈ پر دیکھیں گے، ہم پیر کو رکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پیر کو نہ آئے ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کریں گے ، دو غلط ایک صحیح نہیں ہوتے، جو ٹرائل کورٹ نے کیا وہ ہم نہیں کرینگے۔

ایڈووکیٹ لطیف خان کھوسہ عدالت سے واک آؤٹ کر گئے۔ ہائی کورٹ نے کیس کی پیر تک سماعت ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی حامی وکلاء نے اس دوران نعرے بازی کی۔

ہائیکورٹ میں یہ سماعت سپریم کورٹ کے حکم پر جمعرات کو شروع ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ تھا کہ اگر ہائیکورٹ نے جمعرات کو کچھ نہ کیا تو عدالت عظمیٰ 2 بجے بیٹھے گی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو دو بجے سماعت بھی کی جو یہ کہہ کر ملتوی کردی گئی کہ پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے دیا جائےگا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

جمعرات کی سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں گزشتہ سماعت میں لطیف کھوسہ نے سزا معطلی، ضمانت کی اپیلوں پر دلائل دیے تھے ،الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جمعہ کو مزید دلائل دینے تھے۔

جمعرات 24 اگست کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے عمران خان کی مختصر سزا کی وجہ سے رہائی، دائرہ اختیار کے نقائص اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نامناسب اجازت کے پہلوؤں پر توجہ مرکوزکروائی تھی۔

عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اپیلیٹ عدالتیں کیس کے میرٹ کا جائزہ لیے بغیر بھی اتنی مختصر سزا معطل کر سکتی ہیں۔ لطیف کھوسہ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 14 اگست کو قیدیوں کی سزائیں معاف کیں جس کے تحت عمران خان کی 3 سال کی سزا میں بھی 6 ماہ کی کمی ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں

کیا عمران خان کو رہائی ملے گی؟ توشہ خانہ کیس میں اپیل پر سماعت ملتوی

سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بادی النظر میں غلط قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی اپیل نمٹا دی

وکیل کے مطابق عمران خان کو اب ڈھائی سال قید کی سزا کاٹنی ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سزا معطل کر سکتی ہے۔ ٹرائل کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کی گئی شکایت کے دائرہ اختیار کا جائزہ نہیں لیا۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ شکایت میں دائرہ اختیار میں نقائص تھے کیونکہ الیکشن کمیشن کو ریفرنس دائر کرنے کے لیے ایک افسر کو اختیار دینا ضروری تھا۔ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو شکایت درج کرانے کا اختیار دیا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 218 میں الیکشن کمیشن کی تعریف کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور ای سی پی ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے ارکان کے بجائے سیکریٹری نے کسی افسر کو اختیار دیا، لہٰذا شکایت بغیر اجازت کے دائر کی گئی۔

عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ شکایت مجسٹریٹ کے سامنے دائر کی جانی چاہئیے جو اس معاملے کو سیشن عدالت میں بھیجیں گے۔ سیشن کورٹ براہ راست شکایت پر غورنہیں کرسکتی۔

لطیف کھوسہ نے یہ بھی کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ’اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کی اور شکایت کے دائرہ اختیار اور قابل سماعت کا جائزہ لینے کے بجائے‘ عمران خان کو سزا سنائی۔ سپریم کورٹ نے بھی مشاہدہ کیا کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ سُنانے والے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی جانب سے جلد بازی سے متعلق معاملے کو انتظامی طور پردیکھے گی۔ اس کے بعد لطیف کھوسہ سپریم کورٹ گئے جہاں عمران خان کی درخواست پر دوپہر 2 بجے سماعت ہونی تھی۔

سپریم کورٹ نے کیس کو بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

الیکشن کمیشن کے دلائل

جسٹس آصف سعید کھوسہ ہائیکورٹ واپس آئے جہاں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز دلائل دےرہے تھے۔ انہوں نے کہااعلیٰ عدالتیں کم از کم 6 ماہ قید مکمل کرنے والے سزا پانے والے قیدیوں کی سزا معطل کر سکتی ہیں۔

امجد پرویز نے نشاندہی کی کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین ماہ بعد سزا معطل کردی تھی۔ عمران خان نے جیل میں 20 دن بھی پورے نہیں کیے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ٹرائل کورٹ میں دائرہ اختیار اور قابل سماعت کے معاملے پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے نشاندہی کی کہ عمران خان کے وکیل نے ریاست کو مدعا علیہہ کے طور پر پیش نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سزا کے خلاف تمام اپیلوں میں ریاست کو ایک ضروری فریق کے طور پر پیش کیا جانا چاہئیے۔

لطیف کھوسہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں نے اعلان کیا ہے کہ جن مقدمات میں ایڈووکیٹ جنرل دلائل دینے سے دستبردار ہوئے ان میں نجی وکیل کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

عدالت کے استفسار پر امجد پرویزنے کہا کہ جمعہ 25 اگست کو دلائل مکمل کرنے میں کم از کم تین گھنٹے لگیں گے۔

جیل میں عمران خان کی حالت پر رپورٹ طلب

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو حکم دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی زندگی کے بارے میں سرکاری رپورٹ پیش کریں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عمران خان کے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی، جس میں اٹارنی جنرل کو 28 اگست تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ ہدایت اس وقت سامنے آئی جب جمعرات کی مختصر سماعت کے دوران معاملے پر نہ تو تبادلہ خیال کیا گیا اور نہ ہی یہ فیصلہ کے لیے عدالت کے سامنے زیر التوا تھا۔

گزشتہ روز ہونے والی اس سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کی بڑی بہنیں علیمہ خان اور ڈاکٹر عظمیٰ خان بھی کمرہ عدالت نمبر ایک میں موجود تھیں جبکہ الیکشن کمیشن کے سینئر وکیل اشتر اوصاف اور عرفان قادر بھی عدالت میں موجود تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس معاملے کی جاری سماعت نمازجمعہ کے لیے ملتوی کی گئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظارکرنے کا کہا۔

چیف جسٹس نے کمرہ عدالت نمبر ایک میں اٹارنی جنرل کے دفتر سے نمائندہ بھی طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکم نامے میں عمران خان کی جیل میں موجودگی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔

عدالت نے سینئر وکیل سردار لطیف کھوسہ کو جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تفصیلات شیئر کرنے سے روک دیا۔

نچلی عدالتیں ماتحت نہیں

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس بات پر زور دیا کہ ہائی کورٹس یا سول کورٹس سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود مختار ہیں اور ان کی آزادی کا احترام کیا جانا چاہیے، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بینچ اور بار دونوں کا احترام ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ وہ وکلاء کی جانب سے عدلیہ کو نشانہ بنانے والی پریس کانفرنسز سے خطاب پر خوش نظر نہیں آئے۔

imran khan

Islamabad High Court

Toshakhana

Pakistan Tehreek Insaf

Tosha Khana Criminal Proceedings Case

Toshakhana Criminal Case