بٹ گرام میں چیئرلفٹ سے بچوں کو کس نےبچایا، ریسکیو کرنے والے سامنے آگئے
خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل آلائی کی ایک یونین کونسل پاشتو کا گاؤں جنگڑائی 22 اگست کی صبح اچانک پہلے سوشل میڈیا پھر نیشنل اور دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیشنل میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بن گیا۔
حالانکہ ان بچوں کو 15 گھنٹے کی مشقت کے بعد ریسکیو کرلیا گیا، لیکن اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پروپیگنڈا شروع ہوا، جس میں کہا گیا کہ بچوں کو پاک فوج نے نہیں بلکہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت بچایا۔
22 اگست کی صُبح سے رات تک بٹگرام کی تحصیل آلائی میں کیا ہوا؟
علاقہ جنگڑائی کے سر سبز پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہنے والے گھرانوں کے لئے یہ صبح بھی معمول کی طرح تھی کہ جب ان کے بچے خوڑ کے اس پار دوسرے پہاڑ پر قائم اسکولوں میں تعلیم کے حصول اور کچھ افراد اپنے کام کاج کے لیے گھر سے نکلے اور معمول کے مطابق دونوں پہاڑی علاقوں کو ملانے والے ٹرانسپورٹ کے واحد زریعے کیبل لفٹ جسے مقامی زبان میں ڈولی کہا جاتا ہے میں بیٹھے۔
پہاڑوں کے ان سپوتوں کے لیے 600 سے 900 فٹ نیچے گہرائی میں موجود سٹریم یا مقامی زبان میں خوڑ کو شاید انھوں نے کھبی جھک کر دیکھا بھی ہو تو ان کے لئے کچھ نیا نہیں تھا، لیکن آج ڈولی میں بیٹھنے والے 8 افراد کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سورج اُن کے لئے 15 گھنٹے کا ایک ایسا خطرناک اور تکلیف دہ سفر لے کر آیا ہے جو انھیں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دے گا۔
سات طالب علموں سمیت 8 مسافر صبح 7 بجکر 45 منٹ پر ڈولی میں سوار ہوئے اور ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ ڈولی کے چار کونوں میں سے ایک طرف کی کیبل ٹوٹی اور ڈولی وہیں رک کر لٹک گئی۔
دونوں طرف اونچے پہاڑ، نیچے گہرائی اور اس میں خوڑ، جبکہ ہوا میں معلق ڈولی میں لٹکتی آٹھ انسانی جانیں۔
آلائی، بٹگرام اور پھر مانسہرہ، ہر دفتر کے ٹیلیفون بج اٹھے۔
ساڑھے آٹھ بجے تک کمشنر ہزارہ نے وزارت داخلہ سمیت تمام اہم متعلقہ اداروں کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکو آپریشن ممکن نہیں۔
اب ہیلی کے لیے رابطوں کا مسئلہ تھا۔
موبائل نیٹ ورک کھبی کام کرتا اور کھبی رابطہ منقطع ہو جاتا، ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کی جگہ کا تعین بھی انتہائی اہم تھا، تاہم صبح 11 بجے کی سلاٹ میں پہلا ہیلی کاپٹر آیا۔
ہیلی کاپٹر نے سب سے پہلے علاقے کی ریکی کی، صورتحال کو سمجھا اور ریسکیو کی پہلی کوششش کا آغاز کیا۔
لیکن جیسے ہی ہیلی قریب آتا تھا تو ڈولی ہلتی اور اندر موجود بچے خوف سے چلانا شروع کر دیتے۔
دوسری طرف کنارے پر کھڑے والدین اور رشتہ دار بھی چیختے جس کی وجہ سے انتظامیہ کے افراد کو انھیں سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا۔
انتظامیہ اور ہیلی کے عملے نے جب یہ ساری صورتحال دیکھی تو وہ پہلا ہیلی واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد تھوڑے ہیوی ہیلی کی مدد سے دوسری کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی ہوا کا پریشر بڑھتا اور ڈولی کے قریب جانے سے مسئلہ ہوتا، ڈولی کو جھٹکے لگتے اور بچے پھر ڈر کر چیخنا شروع کر دیتے۔
تیسری بار ائر فورس کا ہیلی منگوایا گیا اس نے پہلے بچے کو ریسکو کیا لیکن اس کوشش میں وہ اوپر والی تار میں لگا، جس سے ہیلی کے کریش ہونے اور ڈولی کو بھی نقصان پہنچنے یا گرنے کا خطرہ پیدا ہوا۔
اس کے بعد انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اب ریسکو کے لیے کوئی اور طریقہ استعمال کیا جائے۔
مختلف آپشنز پر غو رہوا اور شام کے سائے تیزی سے ڈھلنے لگے۔
ہر فیصلہ دھیان لیکن مستعدی سے کرنا تھا کیونکہ معاملہ 8 قیمتی جانوں کو بچانے کا تھا۔
تب زپ لائن استعمال کرنے والے تربیت یافتہ افراد کو لانے کا فیصلہ کیا گیا، کیونکہ انہیں تربیت دی جاتی ہے کہ اگر زپ لائن میں بندہ پھنس جائے یا اٹک جائے تو اسے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
اس لیے فیصلہ کے تحت مانسہرہ سے دو اور بشام سے ایک زپ لائن کے تربیت یافتہ تین افراد کو پاک آرمی کے ہیلی کاپٹر میں جائے وقوعہ پر پہنچایا گیا۔
ڈی سی مانسہرہ نے اس سارے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
سب سے پہلے متاثرہ افراد کے والدین کو اعتماد میں لیا گیا اور یوں ریسکو کے کام کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔
زپ لائن عملے کے تین تربیت یافتہ افراد اپنا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے ڈولی تک پہنچے اور بچوں کو ہارنس (بیلٹ) پہنا کر سب سے پہلے انہیں کیبل پر شفٹ کیا کہ خدانخواستہ ڈولی گر بھی جائے تو بچے کیبل پر محفوظ ہو جائیں۔
پھر ایک ریسکوئر بچوں کو وہاں سے کنارے کی طرف شفٹ کرتا تھا اور کنارے پر کھڑا سٹاف رسی کھینچتا تھا۔
جو بھی فرد ریسکو ہونے کے کنارے پر پہنچایا جاتا سب سے پہلے انھیں طبی امداد دی جاتی تھی، ضروری چیک اپ اور طبی امداد کے بعد انہیں والدین کے حوالے کر دیا جاتا۔
اس پورے عمل کے دوران پاک آرمی، اے ڈی سی جی، اے ڈی سی ریلیف بٹگرام، تحصیلدار آلائی ڈی سی آفس، ڈی ایچ او ہیلتھ، ریسکو 1122، مقامی افراد، پولیس سب وہاں موجود رہے۔
جبکہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت ضلع کمشنر، ڈی آئی جی، ڈی پی او اور اہم حکام ہر لمحے پر ہر فیصلے میں شامل رہے۔
عینی شاہدی کے مطابق آخری تین گاڑیاں جنھوں نے رات ساڑھے 12 یا ایک بجے سپاٹ چھوڑا اس میں دو آرمی اور تیسری گاڑی نائب تحصلیدار آلائی کی تھی۔
اس دوران تمام افراد کے لیے کھانا، پانی، بیٹریز، جنریٹرز وغیرہ سب کا انتظام کیا گیا۔
پورے ہزارہ کی ایڈمنسٹریشن 15 گھنٹے تک الرٹ تھی لیکن اس سارے پراسس میں دو مسائل سے نمٹنا انتظامیہ کے لئے کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔
ایک نیٹ ورک کا مسئلہ جو بار بار مشکل کا باعث بن رہا تھا۔
ضلعی انتظامیہ جیسے ہی آلائی کے ہیڈ کواٹر سے آگے جاتی کبھی رابطہ ہوتا اور کھبی ٹوٹ جاتا، جو پیغام رسانی میں مشکلات کا باعث بنا۔
دوسرا مسئلہ وہ سیکڑوں افراد جو صرف تماشا دیکھنے وہاں پہنچے۔
انتظامیہ کے کچھ اہم افراد کے مطابق ان لوگوں نے موٹر سائیکلیں راستے میں کھڑے کر دیں اور ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر تک ٹریفک بلاک ہوگئی، جس سے آدھا ریسکیو اسٹاف ایک طرف ایک پہاڑ کے کنارے پر تھا دوسرا دوسرے سرے پر، اور یوں انتظامیہ کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
تاخیر کی وجہ کیا بنی؟
بٹگرام انتظامیہ کے مطابق ہر فیصلہ صرف اس لیے وقت لے کر کیا گیا کہ کوئی جان نہ چلی جائے اور ہر بچہ اپنے پیروں پر اترے، تمام ادارے اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔
لوگوں نے خود دیکھا کہ کئی بارحکمت عملی صرف اس لیے تبدیل کی گئی کہ جانی نقصان نہ ہو۔
ہر ادارہ آخر تک وہاں موجود تھا لیکن ریسکیو اسٹریٹجی تبدیل کی جاتی رہے۔
’پاک فوج نے ہم سے رابطہ کیا‘
بٹگرام ڈولی سے طلبا کو ریسکیو کرنے والے ہیرو علی سواتی نے آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ان فواہوں کی تردید کی کہ فوج اندھیرا ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلی گئی تھی۔
ہیونز وے کمپنی کے مالک محمد علی کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ لفٹ کی جگہ پر پہنچیں۔
علی سواتی نے بتایا کہ پاک فوج نے ہی ہم سے رابطہ کیا اور مجھے ہیلی کاپٹر میں وہاں لے جایا گیا۔
علی سواتی کے مطابق آپریشن کے لئے پاک آرمی کے ساتھ مکمل کوآرڈینشن تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی ہوا سے ڈولی ڈول رہی تھی، جس کی وجہ سے پاک فوج نے آپریشن کو چینچ کرکے بائی زیپ لائن آپریشن کیا۔
علی سواتی کے مطابق ایک بندے کو پاک فوج اور ایک کو مقامی شخص نے ریسکیو کیا، اندھیرے کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں اس لیے پاک فوج نے ہی روشنی کا خصوصی انتظام کیا تھا۔
اسی طرح چئیر لفٹ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے والے محمد الیاس نے ریکسیو آپریشن کی تفصیلات آج ڈیجیٹل کو بتائیں۔
زِپ لائنر محمد الیاس نے بتایا کہ جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو سب سے پہلے وائر اور اینکر کو چیک کیا۔ جب ہم لٹکی ہوئی ڈولی کے پاس پہچنے تو تمام طلبا نڈھال تھے، طلبا نے جب ہمیں دیکھا تو ان کی جان میں جان آگئی۔
الیاس نے بتایا کہ پہلے وہ ڈولی کے اندر اترے اور پھر باری باری طلبا کو ہینگ کرکے نکلا۔
الیاس کا کہنا تھا کہ جب ہم نے پہلے تین بچوں کو ریسکیو کیا تو باقی تین بچوں کی جان میں جان آگئی۔
ریسکیوئر الیاس کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد حاصل تھی کہ ہم نے مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔
بچائے گئے افراد کے نام
بٹگرام چئیر لفٹ ریسکیو آپریشن میں جن افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے اُن مٰں سے 5 کے نام یہ ہیں۔
- عرفان ولد امریز
- نیاز محمد ولد عمر زیب
- رضوان ولد عبد القیوم
- گلفراز ولد حکیم داد
- شیر نواز ولد شاہ نظر
- ابرار
- عطاءاللہ
- اسامہ
چئیر لفٹ یا ڈولی کیسے کام کرتی ہے؟
چیئرلفٹ یا ڈولی میں لوہے کے موٹے رسے یا کیبل کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ چلانے کے لیے برقی موٹر یا جنریٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ ڈولی مقامی لوگ اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں جو ایک جنگلے یا پنجرے کی شکل میں اوپن ہوتی ہیں۔
جبکہ کچھ کارخانوں میں بنائی جاتی ہیں جن کے اوپر چادر یا لوہے کی سلاخوں کی مدد سے کور بنایا جاتا ہے۔
6 سے 10 سیٹر ڈولی میں دونوں طرف سیٹیں لگائی جاتی ہیں۔
ڈولی کو چلانے کے لیے لوہے کے موٹے رسوں یا کیبل کو دریا یا دیگر بلند مقامات پر ایک سے دوسری جانب یوں باندھا جاتا ہے کہ یہ بالکل آمنے سامنے رہیں۔
پھر ڈولی کو اس سے لٹکا دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی چیئر لفٹس فوری بند کرنے کی ہدایت
مزید احتیاط کے لیے ڈولی کو آہنی رسی یا کیبل کی مدد یوں فریم میں جکڑا جاتا ہے کہ اس کا وزن مکمل طور پر انہی رسیوں یا کیبل پر موجود رہے۔
ڈولی کے سفر کے آغاز اور اختتام کے مقام پر چبوترے بنائے جاتے ہیں۔
ماضی میں ان ڈولیوں کو آپریٹر ہاتھوں کی مدد سے رسی کو کھینچ کر چلاتے تھے، لیکن اب کہیں بجلی تو کہیں جنریٹرز کی مدد سے برقی موٹر کے ذریعے انھیں آپریٹ کیا جاتا ہے۔
موٹر چلنے پر ڈولی کے اوپر نصب پہیے لوہے کی رسی پر چلتے اور اسے ایک سے دوسری جانب منتقل کرتے ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ میں لفٹ یا ڈولی کا ٹرانسپورٹیشن کے لئے استعمال
لفٹ یا ڈولی کا ٹرانسپورٹیشن کے لئے استعمال عموماً ایسے مقامات پر ہوتا ہے جہاں علاقوں کو ملانے کے لئے رابطہ پلیں یا راستہ نہیں ہوتے۔
جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں چوٹیوں پر قائم دیہات جن کے درمیان گہری کھائیاں یا دریا اور برساتی نالے ہوتے ہیں۔
تب یہ ڈولیاں ان مقامات پر اتنی اونچائی پر لگائی جاتی ہیں کہ ان کی بلندی ہزاروں فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
ان علاقوں میں طبی یا تعلیمی اداروں تک رسائی ، پھر بازار سے سودا سلف لانے، شادی بیاہ کا موقع یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنی ہو، ڈولی کے بغیر سفر کرنا اور ایک سے دوسری جگہ جانا ناممکن ہوتا ہے۔
ایسے ہی چند علاقوں میں ملاکنڈ ڈویژن کا ضلع دیر بھی ہے، جہاں دریائے پنچکوڑہ کے مختلف مقامات میں چئیرلفٹ یا ڈولیاں لگائی گئی ہیں۔
تاہم ان کا فاصلہ اور اونچائی زیادہ نہیں ہوتی۔
ان میں سے کچھ چیئر لفٹ مقامی آبادی نے اپنے روزگار کے لیے بنائی ہیں، کچھ چیئر لفٹ لوگوں کی سہولت کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن نے بھی لگائی ہیں۔
سیلاب کے بعد دریائے پنچکوڑہ پر دیر کے مقام پر رابطہ پل بہہ جانے کی وجہ سے مقامی آبادی کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے چیئر لفٹ قائم کی گئی تھی، جن میں سے کچھ پُل کی دوبارہ تعمیر کے بعد ختم کر دی گئیں، جبکہ کچھ اب بھی کام کر رہی ہیں۔
دیر میں انکار کے مقام جبلوک علاقے کو ملانے کے لیے بھی ایک پرائیویٹ کمپنی نے چیئرلفٹ قائم کی، جہاں پر پل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں تک جانے کے لئے لمبا راستہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔
اب اس چیئرلفٹ کے زریعے چند منٹوں میں مقامی افراد اپنے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔
ان ڈولیوں میں سفر کرنے والوں سے کرایے کی مد میں 30 سے 50 روپے لئے جاتے ہیں۔ جتنی اچھی سرورس ہوتی ہے کرایہ اسی حساب سے لیا جاتا ہے۔
ضلع مالاکنڈ میں 2010 کا سیلاب بیشتر رابطہ پل بہا کر لے گیا، حصار بابا طوطہ کان کے مقام پر رابطہ پل دریا برد ہونے پر مقامی لوگوں نے چندہ جمع کرکے لوئر دیر کے علاقے کمالہ کو ضلع مالاکنڈ سے ملانے کیلئے ڈولی چیئرلفٹ بنائی، جو کئی سال تک لوگوں کو سہولت دیتی رہی لیکن مالاکنڈ انتظامیہ نے اُسے بند کردی۔
اسی طرح ہیڈورکس کے مقام پر محکمہ ایریگیشن کے ریسٹ ہاوس تک جانے کیلئے بھی چیئرلفٹ ڈولی استعمال کی جارہی تھی، مگر ناقص سازوسامان کے باعث انتظامیہ کو اسے بند کرنا پڑا۔
مالاکنڈ اور باجوڑ ایجنسی کو ملانے کیلئے شربتئی اور سیلئی پٹے کے مقام پر دو نجی چیئرلفٹس تھیں، جس میں کئی بار حادثے ہوئے اور کئی افراد جان سے بھی گئے تاہم دونوں مقامات پر پل بننے کے بعد چیئرلفٹ سروس بند کردی گئی۔
دوسری طرف کوہستان بٹگرام اور کاغان ویلی میں بھی ڈولی کا استعمال ان مقامات پر اب بھی ہوتا ہیں جہاں رابطہ پل نہیں ہیں۔
Comments are closed on this story.