سابق تھائی وزیراعظم نے جیل قبول کرکے جلاوطنی ختم کردی، وطن پہنچ گئے
تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شناوترا کو 15 سال کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد وطن پہنچتے پر فوریگرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا گیا۔
تھائی میڈیا کے مطابق ٹیلی کمیونیکیشن کے کاروبار میں قسمت بنانے والے تھاکسن سنگاپور سے نجی طیارے میں منگل کی صبح بنکاک کے ڈان مویانگ ہوائی اڈے پر اترے۔
تھاکسن نے بادشاہ کی آمد پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور کچھ ہی دیر بعد انہیں پولیس قافلے میں سپریم کورٹ لے جایا گیا جہاں ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور کئی دیگر مجرمانہ جرائم کا الزام عائد کیا گیا جسے انہوں نے سیاسی محرک قرار دیا ہے۔
ان کی بیٹی پیتونگٹرن شناوترا نے انسٹاگرام پرخاندان کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’تھائی لینڈ میں خوش آمدید ڈیڈی‘۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ تھاکسن کو بینکاک کی جیل لے جایا جائے گا۔
تھاکسن 2001 میں ایک عوامی پلیٹ فارم پر اقتدار میں آئے تھے جس نے دیہی تھائی باشندوں کو اپنی طرف راغب کیا تھا جنہیں ملک کی حکمران اشرافیہ نے طویل عرصے سے نظر انداز کیا تھا۔ پانچ سال بعد انہیں بھاری اکثریت سے واپس لایا گیا لیکن ستمبر 2006 میں جب تھاکسن نیویارک میں اقوام متحدہ سے خطاب کی تیاری کر رہے تھے تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
تھاکسن کو بعد میں اختیارات کے غلط استعمال کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور وہ 2008 میں جلاوطنی میں چلے گئے تھے اور انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت دبئی میں گزارا تھا۔
تھائی لینڈ میں 2006 کی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی سیاسی افراتفری کا ماحول ہے اور تھاکسن کے حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی انتخابات اور بغاوتوں کے درمیان سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
2006 کی بغاوت کے بعد تھاکسن کی حکومت کے دفاع کے لیے قائم کی گئی نچلی سطح کی دیہی تحریککے کئی ہزار سرخ شرٹس پہنے کارکن وی آئی پی ٹرمینل کے قریب ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔بہت سے لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’ویلکم ہوم تھاکسن‘ اکے نعرے درج تھے۔
تھاکسن کی کامیابیوں میں ایک یونیورسل ہیلتھ کیئر اسکیم شامل ہے جس میں پہلی بار لاکھوں غریبوں کو بنیادی بیماریوں کا عملی طور پر مفت علاج فراہم کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ گاؤں کے کلینک اور اسٹارٹ اپ فنڈز بھی شامل ہیں۔
تھاکسن کی پارٹی کے تازہ ترین اوتار فیو تھائی مئی میں ہونے والے انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پروگریسو موو فارورڈ پارٹی حکومت بنانے میں ناکام رہی کیونکہ ایوان بالا میں فوج کی جانب سے مقرر کردہ سینیٹرز نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا، فیو تھائی نے پارٹیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا، جس میں فوج کی حمایت یافتہ بھی شامل تھی۔
منگل کے روز ووٹنگ ہوگی جس کے نتیجے میں پارٹی کی ایک پراپرٹی ٹائیکون سریتھا تھاویسن وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔
سریتھا کو ایوان زیریں میں 314 ارکان کی حمایت حاصل ہے لیکن اس عہدے کو حاصل کرنے کے لیے اضافی 58 ووٹوں کی ضرورت ہے، جس کے لیے دونوں ایوانوں کی اکثریت کی حمایت درکار ہے۔
تھاکسن نے 2001 اور 2005 میں لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن فوجی بغاوت میں انہیں ہٹا دیا گیا جس نے تھاکلینڈ کو تیزی سے تقسیم کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فوج سے منسلک سبکدوش ہونے والی حکومت کے نائب وزیر اعظم وسانو کریا نگم کا کہنا ہے کہ تھاکسن معافی کی درخواست کرنے کے اہل ہوں گے اور ان کی عمر کی وجہ سے ان کے ساتھ خصوصی سلوک کیا جا سکتا ہے۔
تھاکسن کو پولیس اپنے حامیوں کو ذاتی طور پر خوش آمدید کہنے سے پہلے ہی اپنے ساتھ لے گئی تھی، لیکن جب انہیں عدالت لے جایا گیا تو ہائی وے پر ان کی واپسی کی تعریف کرنے والے پوسٹر اس بات کی یاد دلاتے کہ اتنے سال دور رہنے کے باوجود بہت سے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔
Comments are closed on this story.