سنگاپور میں گھریلو ملازمین کو کنٹرول کرنے کیلئے لوگ پولیس کو استعمال کرنے لگے
سنگاپورمیں مالکان گھریلو ملازمین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے قانون کو بطور ایک ’آلہ‘ استعمال کرنے لگے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پولیس میں 80 فیصد سے زیادہ شکایات مالکان کی جانب سے اپنے نوکروں کے خلاف کی جاتی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومینیٹیرین آرگنائزیشن فارمائیگریشن اکنامکس (ہوم) کی رپورٹ کے مطابق سنگا پور میں مالکان کے پاس بےپناہ اختیارات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کسی جرم میں ملوث گھریلو ملازمین کو عام طور پر کام جاری رکھنے سے روکا جاتا ہے اور پولیس کی وارننگ ملنے کے بعد انہیں سنگاپور میں مستقبل میں ملازمت سے روکا جا سکتا ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح پولیس اور فوجداری انصاف کے نظام کو تارکین وطن گھریلو ملازمین کیخلاف دھمکی اور تادیبی اور اکثر جوابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں 2019 سے 2022 کے درمیان جرائم میں ملوث تارکین وطن گھریلو ملازمین سے متعلق 100 معاملے اجاگر کیے گئے۔
یہ رپورٹ سابق گھریلو ملازمہ پارتی لیانی کے ہائی پروفائل کیس کے جواب میں مرتب کی گئی ہے جن پر چانگی ایئرپورٹ گروپ کے سابق چیئرمین لیو من لیونگ اور ان کے اہل خانہ سے 30 ہزار سنگاپور ڈالر (22 ہزار 103 ڈالر) مالیت کا سامان چوری کرنے کا الزام ہے۔
پارتی کی 2019 میں سنائی جانے والی چوری کی سزا کو ستمبر 2020 میں ہائیکورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔ اپریل میں لیو کے بیٹے کارل کو گھریلو ملازمہ کے مقدمے کے دوران جھوٹ بولنے پر دو ہفتے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ہوم کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں گھریلو ملازمین کے خلاف سب سے عام الزام چوری کا ہے، جن میں سے زیادہ تر واقعات ’معمولی نوعیت‘ کے تھے۔
ایک معاملے میں، ایک مالک نے اپنی گھریلو ملازمہ کو مبینہ طور پر 10 سنگاپور ڈالر (7.30 ڈالر) چوری کرنے کے الزام میں پولیس کو اطلاع دی۔
رپورٹ کے مطابق ملازمین پر چوری کے الزاما بغیرکسی ثبوت کے بہت آسانی سے لگائےجاسکتے ہیں جس سے مالکان پر منفی اثر نہیں پڑتا لیکن تارکین وطن گھریلو ملازمین کے لیے اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔’
چوری کے بعد جسمانی استحصال سب سے عام دعویٰ تھا، جو مہاجر گھریلو ملازمین سے متعلق معاملوں کا 13 فیصدرہا۔ مجموعی طور پر صرف 18 فیصد رپورٹوں کے نتیجے میں مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے۔ 36 فیصد کے نتیجے میں مزید کارروائی نہیں ہوئی اور 43 فیصد نے ”سخت انتباہ“ دیا، جو حکام قانونی چارہ جوئی کے بدلے اپنی صوابدید پر جاری کرسکتے ہیں۔
سنگین نتائج
اگرچہ زیادہ ترشکایات کے نتیجے میں مجرمانہ سزا نہیں ہوتی لیکن گھریلو ملازمین کو صرف الزام سے بھاری نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ملزم گھریلو ملازمہ اوسطا 4 ماہ اس گروپ کی پناہ گاہ میں گزارتی ہیں اور ان الزامات کی وجہ سے ان کے ساتھ اہل خانہ پر بھی شدید مالی اور نفسیاتی دباؤ پڑتا ہے۔ ملازمت کی جگہ چھوڑنے کے بعد مددگاروں کو ”انتقامی الزامات“ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں سامنے آنے والے ایک معاملے میں ایک گھریلو ملازمہ، جس نے ایک سال تک وطن واپسی سے انکار کے بعد ہوم شیلٹر میں مدد مانگی تھی، پر الزام لگایا گیا تھا کہ جب وہ اپنا سامان لینے کے لیے اپنے سابق مالک کے پاس لوٹی تو اس نے پیسے چوری کیے۔
معاون کو تحقیقات کا نتیجہ آنے تک مزید نو ماہ تک سنگاپورمیں رہنے پرمجبور کیا گیا تھا ، جو مزید کارروائی کے بغیراختتام پذیر ہوا۔
اپنی رپورٹ میں ہوم نے سفارش کی ہے کہ تحقیقات میں تعاون کرنے والے گھریلو ملازمین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی جانی چاہئے اور جن لوگوں کو سخت وارننگ جاری کی گئی ہے انہیں مستقبل میں ملازمت سے نہیں روکا جانا چاہئے۔
گروپ نے گھریلو ملازمین کے لئے لیو آؤٹ آپشنز اور آجروں کو تبدیل کرنے کی زیادہ سے زیادہ آزادی کا بھی مطالبہ کیا۔
Comments are closed on this story.