جڑانوالہ واقعہ: حملے کے وقت مقامی افراد نے کیا دیکھا؟
’ہم بس یہاں سے بھاگے، ہم نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا کہ کیا ہوا ہے، ہم بس اپنی جان بچا کر بھاگے، کسی کا دوپٹہ نہیں تھا تو کسی نے چپل تک نہیں پہنی، چھوٹے بچوں کو ہم بھوکا پیاسا ہی اٹھا کر ساتھ لے گئے، ہمیں پتا نہیں کہ بعد میں کیا ہوا، اب آکر کر دیکھا ہے، ہمیں صرف انٹرنیٹ سے پتا چلا اور اب آکر دیکھا کہ ہمارا کچھ بچا ہی نہیں‘۔
یہ کہنا ہے جڑانوالہ میں ہوئے پرتشدد ہنگاموں کی ایک مسیحی متاثرہ خاتون کا، جو بی بی سی کو اپنی کہانی سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔
بی بی سی کے مطابق جس چرچ پر سب سے پہلے حملہ کیا گیا اور اسے جلایا گیا وہ جڑانوالہ کی کرسچن کالونی میں واقع ہے اور تقسیم ہند سے پہلے سے یہاں موجود ہے۔ لیکن اب یہاں صرف جلا ہوا اور ٹوٹا پھوٹا ملبہ ہے۔
اس چرچ کا نام کیتھولک سینٹ جان چرچ ہے اور اس کے آس پاس موجود کچھ گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
جس گلی میں یہ چرچ واقع ہے اس کے بالکل سامنے گلی میں مسلمانوں کے گھر واقع ہیں۔
تاہم، یہاں موجود کسچن کمیونٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ حملہ آور مقامی نہیں بلکہ علاقے سے باہر کے لوگ تھے۔
محلہ کے ایک نوجوان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ لوگ (علاقہ مکین) آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرتے ہیں مفتی صاحبان اور کچھ بڑوں کو آپ لائیں ہم بات کرتے ہیں، وہ مان گئے، لیکن اتنے میں کچھ باہر کے لوگ آئے اور ’آتے ہی ہلا بول دیا، کہنے لگے ان کی بستیاں جلا دو، ان کے گھر جلا دو، ان کے چرچ جلا دو‘۔
مزید پڑھیں
جڑانوالہ واقعہ، یہ جناح کا پاکستان نہیں ہے
جڑانوالہ واقعہ افسوس ناک اور ناقابل برداشت ہے، آرمی چیف
انہوں نے کہا جب حملہ ہوا تو یہاں کی مسلم کمیونٹی نے ہمیں بڑا سپورٹ کیا، انہوں نے ہمیں کہا کہ کچھ پتا نہیں یہاں کب حملہ ہوجائے آپ لوگ اپنے بچے اور خواتین کو یہاں سے نکال لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کل کا دن تو ایسا تھا جیسے پاکستان اور ہندوستان کی جنگ لگی ہوئی ہے، کسی نے کھیتوں میں گزارا کیا تو کسی نے کہیں اور۔
مذکورہ نوجوان کا کہنا تھا کہ پولیس نے حملہ آوروں کو روکنے کی بہت کوشش کی، بہت جدوجہد کی، لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور قابو میں نہیں آرہے تھے۔
Comments are closed on this story.