ٹرمپ کیخلاف چار فرد جرم کیا ہیں؟ الیکشن لڑنے سے روکنا مشکل کیوں
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر منگل کے روز جو نئی فرد جرم عائد کی گئی ہے اس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاست جارجیا سے صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور نتیجہ بدلنے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ 2020 کے انتخابات کے بعد اس وقت ایک ٹرامی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جب الیکٹورل کالج کے اراکین عوامی ووٹوں کے برعکس ٹرمپ کو منتخب کرنے کے لیے بظاہر تیار بیٹھے تھے۔
امریکہ میں عوام اپنے ووٹوں سے الیکٹورل کالج چنتے ہیں اور الیکٹورل کالج کے اراکین بعد میں جمع ہو کر صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح امریکی صدر کا انتخابات مکمل طور پر براہ راست نہیں ہوتا۔ ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کے مرحلے پر نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ اتنا سنگین الزام ہے کہ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکنز پارٹی کے اراکین بھی ان کے دشمن بن گئے ہیں۔ ٹرمپ 2024 میں پھر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمند دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹرممپ کو سخت سزا دی گئی۔
آرکنساس کے گورنر آسا ہچکنسن نے کہاکہ ٹرمپ کو تاحیات نااہل قرار دے دیا جائے۔
مزید پڑھیں
امریکا میں نئی تاریخ رقم، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد
ایران پر حملے کا منصوبہ، ڈونلڈ ٹرمپ کا خفیہ آڈیو لیک پر ردعمل
سازش کے جھوٹے الزامات مہنگے پڑ گئے، ٹرمپ کیخلاف مقدمہ کیا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست جارجیا والا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اس کا مقدمہ 2024 کے دوران بھی چلتا رہے گا۔ انتخابی نتائج کے معاملے پر ٹرمپ کیخلاف ایک فرد جرم وفاقی عدالت میں بھی عائد ہوئی تھی تاہم وہ مقدمہ جلد ختم ہونے کا امکان ہے۔
ٹرمپ کے خلاف اب تک چار مرتبہ فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔
پہلی فرد جرم میں سابق صدر پر ایک پورن اسٹار کو چپ رہنے کے لیے رقم دینے کا الزام ہے۔ جو ریاست نیویارک میں عائد کی گئی۔
دوسری فرد جرم فلوریڈا میں اس وقت عائد کی گئی جب ان پر حساس دستاویزات غیرقانونی طور پر اپنی رہائش گاہ پر رکھنے کا الزام عائد ہوا۔
تیسری فرد جرم واشنگٹن میں عائد ہوئی جس میں ان میں انتخابی نتائج میں فراڈ کا الزام عائد کیا ہے۔ وفاقی عدالت میں لگنے والی یہ فرد جرم انتخابی نتائج کے حوالے سے جھوٹے بیانات سے گرد گھومتی ہے۔
تاہم جارجیا میں عائد ہونی والی چوتھی فرد جرم سنگین ترین ہے۔
جارجیا اور نیویارک کی فردجرم اس لیے بھی سنگین ہیں کہ یہ ریاستی سطح پر عائد کی گئی ہیں اور ریاستی قوانین وفاقی عدالتوں کے قوانین سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ریاست ٹرمپ کا مقدمہ ٹی وی پر نشر کر سکتی ہیں جو وفاقی عدالت میں ممکن نہیں۔
اس کے علاوہ اگر ٹرمپ صدر بن بھی گئی تو ریاستوں میں چلنے والے مقدمات ان کے لیے مصیبت بنے رہیں گے۔ بطور صدر وہ وفاقی عدالتوں پر تو کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں لیکن ریاستی عدالتیں ان کی پہنچ سے باہر رہیں گی۔
بی بی سی نیوز کے مطابق امریکی آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ٹرمپ کو انتخابات لڑنے سے روک سکے۔ لیکن مقدمات کے سبب انہیں سارا وقت عدالتوں میں بیٹھنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں قانونی اخراجات بھی ادا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ کی توانائی عدالتوں میں ہی خرچ ہو جائے گی۔
Comments are closed on this story.