بچیوں کے اسکول کھول دو، افغان خاتون رہنما طالبان کے پاس پہنچ گئیں
15 اگست وہ تاریخ ہے جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا اور اپنے اقتدار سنبھالنے کا باقاعدہ اعلان کیا، اور آج اس اقتدار کی دو سالہ سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر طالبان کی جانب سے سرکاری چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا۔
لیکن دو سالوں میں طالبان حکومت نے اقدامات اٹھائے ان پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی، جن میں سے ایک خواتین کے تعلیمی حقوق پر قدغن تھا۔
طالبان کے دور حکومت میں خواتین کی زندگی تیزی سے جہنم بنتی جا رہی ہے۔
اسی حوالے سے خواتین کے حقوق کی ایک افغان کارکن اور 2023 کے نوبل امن انعام کی نامزد امیدوار محبوبہ سراج کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب ’اب خواتین کی آزادی نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔‘
امریکی خبر رساں ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں معاشرے سے، زندگی سے، ہر چیز سے – خواتین کی رائے، ان کی آواز، وہ کیا سوچتی ہیں، کہاں ہیں مٹائی جارہی ہیں‘۔
مزید پڑھیں
بیوٹی پارلر بندش کیخلاف افغان خواتین کا احتجاج، طالبان کی ہوائی فائرنگ
افغان محکمہ تعلیم خواتین کیلئے یونیورسٹیاں کھولنے کوتیار
امریکا نے ’خواتین پر جبر میں ملوث‘ طالبان رہنماؤں پر ویزا پابندیاں عائد کردیں
حالانکہ جب طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالا تو ابتدا میں خود کو اپنی سابقہ ذات کے زیادہ معتدل ورژن کے طور پر پیش کیا، یہاں تک کہ یہ وعدہ بھی کیا کہ خواتین کو یونیورسٹی تک اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔
لیکن اس کے بعد انہوں نے لڑکیوں کے اسکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، خواتین کو یونیورسٹی میں جانے اور اقوام متحدہ سمیت این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی عائد کی، کسی مرد محافظ کے بغیر ان کے سفر پر پابندی لگائی اور ان پر پارکس اور جم جیسی عوامی جگہوں پر جانا محال کردیا۔
افغانستان میں خواتین اب زیادہ تر شعبوں میں کام نہیں کر سکتیں، انہیں گزشتہ ماہ ایک اور دھچکا بھی لگا جب طالبان نے ملک بھر کے تمام بیوٹی سیلون بند کر دیے۔ اس صنعت نے تقریباً 60,000 خواتین کو ملازمت دی تھی، جن میں سے اکثر اپنے گھر کی واحد کفیل تھیں۔
انہی مسائل کے حل کیلئے محبوبہ سراج نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے ملاقات کی۔
محبوبہ سراج نے ترجمان طالبان سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایک ایسی نسل کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اسکول ہی نہ گئی ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک طلبان حکومت یہ مسئلہ حل نہیں کرتی دنیا ان کے خلاف ہی رہے گی۔
ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے محبوبہ کے تحفظات افخان حکومت تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا کہ ’لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی ایک مسئلہ ہے‘، اور دعویٰ کیا کہ یہ گروپ ’اسلامی اصول و ضوابط کے لیے زمین ہموار کرنا‘ اور ’ان کی تعلیم کے لیے محفوظ ماحول‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’خواتین صحت، تعلیم، پولیس کے محکموں، پاسپورٹ دفاتر، ہوائی اڈوں وغیرہ میں کام کر رہی ہیں۔‘
لیکن غیر منافع بخش تنظیموں (این جی اوز) اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت سے بہت دور ہے، اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں خاص طور پر فرق واضح ہے۔
خواتین کے حقوق کی کارکن محبوبہ سراج نے کہا کہ ’افغانستان کے نوجوان اپنے پھیپھڑوں کے بل چیخ کر دنیا کی توجہ اپنی طرف اور افغانستان میں جنگ کی صورت حال کی طرف دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
محبوبہ سراج نے کہا کہ ’میں افغانستان میں ہوں اور یہاں رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ میں اپنی بہنوں کے ساتھ رہوں اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کروں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے پوری امید نہیں کھوئی ہے۔ لیکن راستے کے ہر قدم اور ہر فیصلے کے ساتھ، میں اسے مزید مشکل ہوتا دیکھ رہی ہوں۔‘
Comments are closed on this story.