Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

جیل میں عمران خان پر پانچ ڈاکٹر تعینات، کھانے کی جانچ

عمران خان کو اٹک جیل بھیجنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ پنجاب حکومت کا خط عدالت میں پیش
اپ ڈیٹ 11 اگست 2023 03:39pm
۔ فوٹو — اے ایف پی
۔ فوٹو — اے ایف پی

عدالت میں پنجاب حکومت کا خط بھی پیش کردیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل کے زیادہ تر قیدی بم دھماکوں اور دہشتگردی جیسے سنگین مقدمات میں نامزد ہیں، سیکیورٹی وجوہات کے پیش نظر چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا گیا، جب کہ عمران خان کے لئے 5 ڈاکٹرز تعینات کئے گئے ہیں، ان کا کھانا ایک میڈیکل آفیسر اور ایک ڈی ایس پی چیک کرتا ہے پھر چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ جب ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل بھیجا تو آپ نے انہیں اٹک جیل بھیج دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ کس کا تھا؟۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پنجاب حکومت کی جانب سے اٹک جیل منتقلی کا خط عدالت کے سامنے پیش کردیا، خط وکیل پنجاب حکومت کی جانب سے پڑھا گیا، جس میں اٹک جیل منتقلی سے متعلق تفصیلات درج تھیں۔

خط کے متن کے مطابق اڈیالہ جیل حساس نوعیت کی جیل ہے جہاں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں اور زیادہ تر قیدی بم دھماکوں اور دہشتگردی جیسے سنگین مقدمات میں نامزد ہیں، سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل نہیں کیا گیا۔

عمران خان کے وکیل شیر افضل نے ان وجوہات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی کے آنے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ پاکستان کی تمام جیلوں میں قیدی جگہ سے زیادہ ہیں۔

وکیل شیر افضل کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو کس کلاس میں رکھنا ہے، 7 دن میں یہی فیصلہ نہیں ہو سکا، یہ کام ابتدائی طور پر ٹرائل کورٹ کے جج کا کام ہوتا ہے۔

وکیل پنجاب حکومت نے مؤقف پیش کیا کہ ہم نے پانچ ڈاکٹرز جیل میں ان کے لیے رکھے ہوئے ہیں، ڈی ایچ کیو میں پہلے معاملہ بھیجا جاتا ہے پھر بورڈ ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے۔

وکیل شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ان کا اپنا ڈاکٹر چیک کر لے گا تو کیا ہو جائے گا؟ نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ڈاکٹر عدنان روز چیک کرنے آتے تھے، آپ بیشک جیل کا ریکارڈ منگوا لیں۔

شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ہم چیئرمین پی ٹی آئی کو قرآن پاک دینا چاہ رہے ہیں کتابیں دینے چاہ رہے ہیں یہ وہ بھی نہیں دینے دے رہے۔

پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ وہاں عمران خان کو قرآن اور جائے نماز پہلے ہی دے دی گئی ہے۔

عمران خان خان کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی انگلش ورژن استعمال کرتے ہیں ہم نے وہ دینا تھا۔ جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہم انگلش ورژن بھی پہنچا دیں گے۔

وکیل پنجاب حکومت نے مزید بتایا کہ عمران خان کے لیے ہم نے کھانے کے لیے الگ سے باورچی رکھا ہوا ہے، ان کے الگ برتن رکھے ہوئے ہیں، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک ڈی ایس پی کھانا چیک کرتا ہے پھر چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو حقوق چیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں وہ انہیں ملنے چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات اور سہولیات سے متعلق مناسب آرڈر کروں گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں، وہ سابق وزیراعظم ہیں اور ساتھ ہی سزا یافتہ بھی ہیں، ہمیں دونوں چیزوں کو اکٹھے لیکرچلنا ہے۔ اگر جیل میں ایک دو لوگ بھی جا رہے ہیں تو پھر تو کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی، 40 یا 50 لوگ جائیں تو اور بات ہے۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی۔

عمران خان کرپٹ پریکٹیسز کا مرتکب قرار

واضح رہے کہ اسلام آباد سیشن کورٹ نے 5 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا سنائی تھی اور عمران خان کو کرپٹ پریکٹیسز کا مرتکب قرار دیا تھا، توشہ خانہ کیس میں ان کے خلاف الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال کیلئے نااہل قراردے دیا ہے۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6 ماہ قید کاٹنا ہوگی۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ فوجداری کیس ناقابل سماعت ہونے کی درخواست بھی مسترد کردی۔ عدالت نے عدم پیشی پرحق دفاع ختم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔

عدالت نے کہا کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف الزام ثابت ہوگیا، ملزم نے جھوٹا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، جان بوجھ کر معلومات چھپائیں۔

جمعہ ہونے والی سماعت تین بار ملتوی کی گئی لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا ، عدالت نے بارہ بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اگر 12 بجے خواجہ حارث پیش نہ ہوئے تو بغیر سنے فیصلہ سنا دیا جائے گا۔