فوجی عدالتوں سے متعلق کیس: فل کورٹ کی استدعا مسترد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ نے 9 مٸی کے واقعات سے متعلق سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرنے سے متعلق تحریری حکمنامہ جاری کردیا، عدالت عظمیٰ نے حکمنامے میں کہا ہے کہ اس وقت موسم گرما کی تعطیلات کے باعث فل کورٹ تشکیل دینا ممکن نہیں،، اسلئے درخواست نمٹائی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے 9 مٸی کے واقعات سے متعلق سویلینز کے خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ 2021ء میں قرار دے چکی بنچز کی تشکیل کا صوابدیدی اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، چیف جسٹس بطور ماسٹر آف روسٹر بینچ کی تشکیل پر فیصلہ کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں
9 مئی کو گولی نہ چلا کر فوج نے درست کیا، غیرآئینی کام روکیں گے، چیف جسٹس
فوجی عدالتوں کی سماعت اوپن ہوگی، فیصلے کی تفصیلی وجوہات دی جائیں گی، سپریم کورٹ
فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں خصوصی عدالتوں کے کیس میں فل کورٹ بینچ تشکیل دینا ممکن نہیں کیونکہ موسم گرما کی تعطیلات کے باعث تمام ججز دستیاب نہیں، خصوصی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ میں سے 2 ججز جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرچکے ہیں جبکہ ایک جج جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض پر کیس سننے سے معذرت کی۔
عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے مقدمے میں وکیل فیصل صدیقی کی دائر درخواست پرفل کورٹ بنانا اس وقت تکینکی بنیادوں پر ممکن نہیں لہذا درخواست نمٹائی جاتی ہے۔
فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست مسترد
خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے 2 اگست کو سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے کے خلاف فل کورٹ بنانے کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھےکہ ہم نے آپس میں مشاورت کرلی ہے، فیصل صدیقی صاحب آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ کی عزت کرتے ہیں اس لیے فل کورٹ کی درخواست سنی لیکن عدالت اس طرح سے کیس کے درمیان درخواستیں نہیں سنتی۔
جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا ہم اللہ کو جوابدہ ہیں اس لیے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، کسی کو پسند آئے یا نہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں گے، ہمارا کام ٹھیک ہے یا غلط اس کا فیصلہ وقت اور تاریخ کرے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ قانون سے ہٹ کرقائم کورٹ عدالت تصور نہیں ہوگی، محرم علی کیس میں کہاکہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کی سپروائزری کے بغیر عدالت نہیں قائم ہو سکتی۔
واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
اس فیصلے سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔
درخواست گزار کون ہیں
فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں۔
Comments are closed on this story.