Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

عمران خان اٹک جیل کی ’کلاس سی‘ میں بند، علاقہ ریڈ زون قرار

جیل میں صرف سی کلاس ہے، پولیس سابق وزیراعظم کو لاہور سے سڑک کے راستے لائی
اپ ڈیٹ 06 اگست 2023 08:30am
اڈیالہ جیل کا ایک بیرک (فائل فوٹو)
اڈیالہ جیل کا ایک بیرک (فائل فوٹو)

پی ٹی آئی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں 3 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرکے بذریعہ موٹر وے اسلام آباد لایا گیا جہاں طبی معائنے کے بعد انہیں اٹک جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

اطلاعات تھیں کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قید کیاجائے گا تاہم عین وقت پر انہیں اٹک جیل پہنچا دیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق عمران خان کو 6 بج کر 50 منٹ پراٹک جیل منتقل کیا گیا اور جیل مینویل کے مطابق ان کا میڈیکل کیا گیا، جس میں انہیں صحت مند قرار دیا گیا۔ چئیرمین پی ٹی آئی کو جیل کی کلاس سی میں رکھا گیا ہے جہاں ضرورت کے مطابق سہولیات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔

پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کے ایک افسرنے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عمران خان کی جیل منتقلی کے بعد معمول کے طریقہ کار کے مطابق ان کی گرفتاری کا وارنٹ کیا چیک کیا جائے گا۔ پھر اگر کوئی سابقہ میڈیکل ریکارڈ یارپورٹ ہے تو اس کی جانچ کی جائے گی جس کے بعد جیل میں ہی تازہ میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا۔

عمران خان کے پاس موجود ذاتی اشیا حکام کے حوالے کر دی جائیں گی جو جیل کے مال خانے میں رکھی جائیں گی۔ یہ اشیاء رہائی کے وقت واپس کر دی جاتی ہیں۔

پولیس نے اٹک جیل جانے والے تمام راستوں کو سیل کرکے پوسٹیں قائم کرلی ہیں، جیل کے اطراف پولیس ایلیٹ فورس کے دستے تعینات کردیے گئے ہیں، خفیہ اداروں نے بھی جیل کے اندر اور باہر ڈیرے جما رکھے ہیں۔ جیل تک کسی صحافی یا عام آدمی کو سرائی نہیں دی جارہی۔

سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کے باعث مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ علاقے کے رہائشیوں کو اپنے گھر جانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس سے قبل خبر آئی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پمز اسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں ان کا طبی معائنہ کیا جانا تھا، طبی معائنے کے بعد انہیں جیل منتقل کیا جانا تھا۔

دوسری جانب عمران خان کے میڈیکل کیلئے پولی کلینک اسپتال نے ڈاکٹر فرید اللہ شاہ کی سربراہی میں 4 رکنی اسٹینڈ بائی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا ہے۔اسپتال انتظامیہ کی جانب سے میڈیکل بورڈ ممبران کو اسٹینڈ بائی رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، میڈیکل بورڈ ترجیحی کیسز کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔

پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی درجہ بندی

پنجاب کی جیلوں میں قیدی 3 کیٹگریزمیں رکھے جاتے ہیں۔

سی یا کامن کیٹگری: وہ قیدی جو قتل،ڈکیتی،چوری، لڑائی جھگڑے اورمعمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔

بی یا بیٹرکیٹگری: جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں ملوث ہوں لیکن تعلق اچھے خاندان سے ہو، گریجویٹ ملزمان بھی بی کیٹگری کے اہل ہوتے ہیں۔

اے کلاس کیٹگری: اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وفاقی وزرا اور وہ قیدی جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں، اس کیٹگری کے اہل ہوتے ہیں۔

عمران خان کو کون سی کلاس دی جائے گی۔

جیل قوانین کے مطابق سابق وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے عمران خان کو ’اے کلاس کیٹگری‘ دی جاسکتی یے، تاہم جیل میں اے یا بی کلاس کیٹیگری کی سہولت موجود نہ ہونے کے باعث یہ سہولت خارج از امکان ہے۔

بی بی سی کے مطابق پنجاب کی 42 جیلوں میں سے صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان میں بہاولپور جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہے۔

اے، بی اور سی کیٹیگری کی سہولیات

اے کلاس

جیل مینوئل کے مطابق ’اے کلاس‘ والے قیدیوں کو رہائش کیلئے دو کمروں کی بیرک دی جاتی ہے۔ بیڈ، اے سی، فریج اور ٹی وی کے علاوہ کچن کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی اجازت ہوتی ہے۔

گھر سے کھانا منگوانا چاہیں تو پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عزیز واقارب یا وکلاءکی ملاقات کا ہفتے میں ایک دن مقرر کیا جاتا ہے جس کی منظوری حکومت دیتی ہے۔

اے کلاس قیدی کو 2 کام کرنے والے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

بی کلاس

اس کلاس کے قیدیوں کو الگ سے ایک کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے لیکن جیل جیل سپرنٹنڈنٹ مشقتیوں کی تعداد ایک سےٓ دو کرسکتا ہے۔

بی کلاس کے حصول کیلئے متعین شرائط ہیں جن کیلئے محکمۂ داخلہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

سی کلاس

سی کیٹیگری عام قیدیوں کے لیے ہے جنھیں ایسی کوئی سہولیات میسر نہیں ہوتیں جن کا تعلق ان کی تعلیم یا عہدے سے ہو۔

تاہم سی کیٹگری کے سیاسی قیدی کو عام قیدیوں کے بجائےالگ کوٹھری میں رکھاجاتا ہے۔

اڈیالہ جیل میں انتظامات

اس سے قبل راولپنڈی سینٹرل جیل اڈیالہ انتظامیہ نے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی تھی۔

پی ٹی آئی ذرائع نے آج نیوز کو بتایا کہ جب پولیس ٹیم نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے آدھے گھنٹے کے اندر لاہور میں ان کی زمان پارک رہائش گاہ سے گرفتار کیا ، تو انہیں پچھلے دروازے سے لے جایا گیا۔

فوری طور پر کسی کو نہیں معلوم تھا کہ عمران خان کو کہاں لے جایا جائے گا۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق انہیں کوٹ لکھپت جیل میں رکھا جانا تھا، جسے سرکاری طور پر لاہور سینٹرل جیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

آج نیوز کے نمائندہ ریاض احمد نے رپورٹ کیا کہ پولیس ابتدا سے عمران خان کو اسلام آباد لے جانے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ بعد ازاں پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر نے بھی اس کی تصدیق کی۔

قانون کے تحت، کسی گرفتار شخص کو عدالت کی منظوری کے بغیر ایک دائرہ اختیار سے دوسرے دائرہ اختیار میں منتقل نہیں کر سکتے۔

ریاض احمد نے بتایا کہ پولیس نے عمران خان کو مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور ان کی اسلام آباد منتقلی کے لیے قانونی کارروائی مکمل کی۔

اس کے بعد انہیں لاہور ایئرپورٹ لے جایا گیا تاہم موسم خرابی کے سبب سفر سڑک کے راستے طے ہوا۔

جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے، جنہیں بعد میں ہٹا دیا گیا۔

جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں ہائی سکیورٹی زون کے لاک اپ میں رکھا جانا تھا۔

جیل انتظامیہ نے کہا تھا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلے کے مطابق سہولیات میسر ہوں گی۔

جیل حکام نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اے یا بی کلاس نہیں دی جائے گی، انہیں اے یا بی کلاس عدالتی احکامات پر ہی ملے گی۔

’عمران خان کے لیے مچھ یا خیرپور جیل بہتر‘

یہ بات ابھی واضح نہیں کہ اگر عمران خان طویل عرصے کے لیے جیل جاتے ہیں تو انہیں اٹک میں ہی رکھا جائے گا یا کسی اور جگہ منتقل کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان کا کہنا ہے کہ خواب دیکھا ہے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لیے مچھ یا خیرپور جیل بہتر ہے۔

قبل ازیں، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ عمران خان کو مچھ جیل کے مرچی وارڈ میں رکھوں گا، مچھ جیل میں سیاستدان رہتے رہے ہیں جب کہ اختر مینگل نے وعدہ لیا ہے کہ عمران کو گرفتار کیا تو انہیں مچھ جیل میں رکھیں گے۔

خیال رہے کہ عدالت نے عمران خان کو کرپٹ پریکٹیسز کا مرتکب قرار دے دیا ہے، توشہ خانہ کیس میں ان کے خلاف الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال کیلئے نااہل قراردے دیا ہے۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6 ماہ قید کاٹنا ہوگی۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ فوجداری کیس ناقابل سماعت ہونے کی درخواست بھی مسترد کردی۔ عدالت نے عدم پیشی پرحق دفاع ختم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔

عدالت نے کہا کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف الزام ثابت ہوگیا، ملزم نے جھوٹا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، جان بوجھ کر معلومات چھپائیں۔

جمعہ ہونے والی سماعت تین بار ملتوی کی گئی لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا ، عدالت نے بارہ بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اگر 12 بجے خواجہ حارث پیش نہ ہوئے تو بغیر سنے فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

adiala jail

imran khan arrested

Imran Khan Arrested August 5