مصنوعی ذہانت کے ذریعے ’بچوں کے اغوا‘ کا خوفناک فراڈ سامنے آگیا
پاکستان میں آپ نے اس فراڈ کے بارے میں ضرور سنا ہوگا جس میں سکیمرز فون کر کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا یا بھتیجا گرفتارہو گیا ہے اور اتنی رقم لے کر تھانے پہنچیں۔ امریکا میں اسی نوعیت کا ایک اعلیٰ درجے کا فراڈ سامنے آیا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو ان کے بچوں کے اغوا کی فیک ویڈیو یا آڈیو بھیجی جاتی ہے۔
دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک ماں نے ایسی ہی آپ بیتی بیان کی ہے۔
خاتون کے مطابق اسے اپنے فون پر بیٹی کی کال آئی جس کا کہنا تھا کہ، “ماں، میں نے گڑبڑ کر دی ہے۔’’ اسی دوران اس نے سنا کہ ایک آدمی اسے لیٹنے اور اپنا سر پیچھے رکھنے کا حکم دے رہا ہے۔ خاتون کے مطابق اس کی 15 سالہ بیٹی، بریانا دو گھنٹے کی دوری پر اپنے والد کے ساتھ اسکیئنگ مقابلے میں تھی، فوری طور پر اس نے سوچا کہ بیٹی کو بری طرح چوٹ لگی ہے۔ اتنے میں اس نے بریانا کو روتے ہوئے اور چیختے ہوئے سنا، ”میری مدد کریں، میری مدد کریں“۔
فون پر موجود شخص نے خاتون سے کہا کہ اگر اس نے کسی کوکچھ بتایا تو وہ اس کا منشیات سے بھرا ہوا پیٹ پمپ کرے گا، اسے میکسیکو میں چھوڑے گا اورپھر خاتون اپنی بیٹی سے کبھی نہیں مل پائے گی۔
خاتون نے بتایا کہ وہ عمارت کی لابی میں گئی جہاں اس کی چھوٹی بیٹی اوبری اڈانس کلاس لے رہی تھی اور وہاں موجود دوسرے والدین سے مدد کے لیے کہا۔ اس وقت تک وہ شخص فون پر دھمکیاں دے رہا تھا۔ کچھ ماؤں نے 911 پر کال کرنا شروع کر دیا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر نقد رقم نہیں لائے گی تو اُسے اس کی بیٹی کے ساتھ میکسیکو لے جایا جائے گا اور وہاں مردہ چھوڑ دیا جائے گا۔
اس شخص نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگراپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہیں تو آپ کو 10 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ اتنی رقم نہ ہونے پر خاتون اسے 50 ہزار ڈالرز دینےپرتیار ہوگئی۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ خاتون کو ایک سفید وین میں بٹھائے گا اور اوراُس کے سر پر ایک بیگ کور رکھے گا تاکہ وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ اسے کہاں لے جایا جارہا ہے۔ نقد رقم نہ لانے کی صورت میں اسے میکسیکو لے جاکر بیٹی کے ساتھ مردہ چھوڑ دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔
خاتون کے مطابق اس کسی موقع پر یہ خیال نہیں آیا کہ کیا یہ سب کچھ حقیقی یے ، اس کی حسیات بیٹی کی زندگی بچانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لیے چیخ رہی تھیں۔
اس کے دماغ نے 911 پر کال کرنے والی ماؤں میں سے ایک کی آواز سے متعلق سگنل دیا جو کہہ رہی تھی کہ، ’ ”یہ اے آئی (مصنوعی ذہانت )ہے“۔ پولیس نے حال ہی میں اسی طرح کی تفصیلات کے ساتھ معاملات میں اضافہ دیکھا۔
لیکن وہ یہ بات قبول نہیں کر سکی، اور سوچتی رہی کہ اس کی بیٹی خطرے میں ہے اور اسے بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس کی بیٹی کی آواز ہی تھی۔ ایک اور ماں نے کہا کہ اس کے شوہرنے بریانا کو ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ اسکیئنگ اور محفوظ تھی، اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی کس بارے میں بات کر رہا ہے۔
دوسری جانب فون پر موجود شخص اب بھی بحث کر رہا تھا۔ خاتون نے اس کی کال ’میوٹ‘ کرتے ہوئے دوسری لائن پر اپنے شوہر اور بیٹی سے بات کروانے کا مطالبہ کیا۔ بیٹی نے ماں کو بتایا کہ اسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں وہ کس بارے میں بات کر رہی ہیں اوروپ ریزورٹ میں اپنے والد کے ساتھ محفوظ ہے۔
تسلی ہوجانے کے بعد خاتون نے ملزم کی کال کو ’ان میوٹ‘ کیا جہاں وہ شخص اب بھی وہ تمام چیزیں دُہرا رہا تھا جو وہ ان کے ساتھ بات نہ ماننے کی صورت میں کرنے والاتھا۔
خاتون نے اسے دھوکہ باز کہنا شروع کر دیا، لیکن وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتا رہا کہ خاتون کی بیٹی اس کے پاس ہی ہے۔
خاتون کے مطابق یہ سن کر اسے شدید صدمہ پہنچا کہ پولیس نے اسے صرف ایک مذاق کی کال سمجھا، اور اس کی تحقیقات نہیں کرے گی کیونکہ کسی کو چوٹ نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی کوئی پیسہ لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شاید ’اے آئی فراڈ‘ تھا کیونکہ حال ہی میں ان کی بہت سی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بریانا کی آواز مصنوعی ذہانت سے پیدا ہوئی ہوگی اور اس شخص کی آواز حقیقی ہوگی۔
وہ یہ سب سن کرصدمے سے رو پڑہ، وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹی کی آواز کتنی حقیقی لگ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس کی بیٹی ہی کی چیخیں تھیں۔
خاتون نے مزید بتایا کہ اس واقعےنے بیٹی کو شدید متاثر کیا، اس کی عمر کے ایک لڑکے نے اسے اپنا نمبر دینے کی کوشش کی، اور وہ اس فکر میں میرے پاس بھاگی کہ وہ اسے اغوا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز کی نقل کرنے کے لئے صرف تین سیکنڈ کی آڈیو کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بریانا کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس نجی ہیں ، لیکن کھیلوں اور اسکول کے لیے ان کا انٹرویو لینے کی کچھ ویڈیوز موجود ہیں ، لیکن ان میں بریانا کے رونے کی آواز نہیں ہے۔
بیٹی سے متعلق یہ خوفناک تجربہ شیئرکرنے والی ماں کا کہنا ہے کہ ، ’میں پریشان ہوں کہ اے آئی جیسی نئی ٹکنالوجی کو بچوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں کتنی خوفناک ہو سکتی ہیں‘۔
Comments are closed on this story.