Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کر لیا

انٹیلی جنس ایجنسیاں بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتی ہیں، بل
اپ ڈیٹ 01 اگست 2023 07:21pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل

قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کر لیا، اس قانون کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتی ہیں یا طاقت کا استعمال کرسکتی ہیں جبکہ پاکستان کے مفاد کے خلاف معلومات دستاویزات کا انکشاف کرنے والا جرم کا مرتکب ہوگا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا۔

بل کے متن کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے، جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔

سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصورہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاست کے تحفظ یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی اسی ایکٹ کے تحت ہوگی۔

بل کے متن میں بتایا گیا ہے کہ جان بوجھ کر امن عامہ، مفادات یا پاکستان کے لیے نقصان دہ کام کرنے کے جرم کے مرتکب فرد کو 3 سال قید، 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔

بل کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیاں کسی بھی وقت بغیر وارنٹ کے کسی بھی جگہ داخل ہوکر تلاشی لے سکتی ہیں یا طاقت کا استعمال کرسکتی ہیں، تفتیشی افسر ایف آئی اے کا آفیسر ہوگا، مذکورہ افسر کی تقرری ڈی جی ایف آئی اے کرے گا، ضرورت پڑنے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جاسکے گی مزکورہ جرائم خصوصی عدالت کو بھیجے جائیں گے، خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔

قومی اسمبلی: یونیورسٹیوں کے قیام کے بلز پر حکمران اتحاد آپس میں الجھ پڑے

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران یونیورسٹیوں کے قیام کے بلز پر حکمران اتحاد آپس میں الجھ پڑے، ڈپٹی اسپیکر کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تنازع حل نہ ہوسکا، اسپیکرکے چیمبر میں ہونے والے 38 منٹ کے مذاکرات بھی ناکام ثابت ہوئے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی کی زیر صدارت شروع ہوا، جس میں متعدد بلز پیش کیے گئے اور کئی بل منظور ہوگئے۔

قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا بل اور توشہ خانہ بل منظور کرلیا جبکہ 13 نئی جامعات کے قیام کے بلزایوان میں پیش کیے گئے، 13 نئی یونیورسٹیز کے قیام سے متعلق بلوں پر قانون سازی کا عمل شروع ہوا۔

کنگز یونیورسٹی اسلام آباد بل 2023ء کی باری آئی تو وفاقی وزیر تعلیم نے اعتراض اٹھا دیا اورکہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، اس یونیورسٹی کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔

وفاقی وزیر تعلیم کے اعتراض پر ڈپٹی اسپیکر نے بل کی منظوری مؤخر کردی۔

ببرک ادارہ برائے سائنس آرٹ اینڈ ٹیکنالوجی بل 2023ء منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا گیا تو وفاقی وزیر رانا تنویر نے بل کی مخالفت کردی۔

ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے پر پیپلزپارٹی کے قادر مندو خیل نے احتجاج کیا اور ان کی حمایت میں خورشید شاہ میدان میں آگئے۔

اخوت انسٹی ٹیوٹ قصور بل 2023ء کی باری آئی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے اس کے لیے رائے شماری کی ہدایات کردی۔

یونیورسٹی کے بلوں کی منظوری پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلاف ہوا۔

یونیورسٹیوں سے متعلق قانون سازی میں حکمران اتحاد تقسیم نظر آیا۔ حکومتی رکن طاہرہ اورنگزیب کے قصور میں یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں قانون سازی پر حکمران اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی۔

وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے بل کی حمایت جبکہ لیگی رکن ڈاکٹر ذوالفقارعلی بھٹی کی کنگزیونیورسٹی بل کی مخالفت کی۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اخوت انسٹی ٹیوٹ قصور کیا کام کرے گا اس لیے سپورٹ کررہا ہوں۔

اس بیان پر ارکان نے رانا تنویر حسین کے مؤقف پر ایوان میں ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کردیا۔

ووٹنگ شروع ہوتے ہی پیپلز پارٹی ارکان کی اکثریت ایوان میں پہنچ گئی اور یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق بل پر قانون سازی ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی۔

حکمران اتحاد کے درمیان اسپیکر کے چیمبر میں 38 منٹ تک مذاکرات ہوئے جو ناکام رہے۔

ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے اس صورتحال میں اجلاس بدھ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔

بل آئندہ حکومت مناسب ترامیم کے ساتھ پیش کرے گی، وفاقی وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پرتشدد اور انتہاء پسندی کے حوالے سے مجوزہ مسودہ قانون پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے پرتشدد اور انتہاء پسندی کا بل واپس لینے کا کہا تھا، یہ بل حکومت نے پیش نہیں کیا تھا اور نہ ہی موجودہ حکومت کا تیار کردہ ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پرتشدد اور انتہاء پسندی کا بل دوبارہ پیش نہیں کیا جائے گا، پرتشدد اور انتہاء پسندی کا بل پی ٹی آئی دور میں تیار ہوا تھا، پی ٹی آئی دور میں سی سی ایل سی، کابینہ نے منظوری دی تھی۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کسی کو دیوار سے لگانے پر یقین نہیں رکھتے، اسمبلی کی مدت ختم ہورہی ہے تو محکمے پینڈنگ بل نکلوارہے ہیں، بل آئندہ حکومت مناسب ترامیم کے ساتھ پیش کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے، ڈیجیٹل مردم شماری پر مختلف لوگوں کے اعتراضات ہیں، ڈیجیٹل مردم شماری سی سی آئی میں زیر بحث لانا چاہیئے۔

اسلام آباد

National Assembly

zahid akram durrani

Bills for Establishment of Universities