برطانیہ میں ہزاروں افراد کے بینک اکاؤنٹس بغیر بتائے بند کر دیئے گئے
منی لانڈرنگ اور لوگوں کی رقم پر سخت نگرانی کے باعث برطانوی بینکس ہر روز ایک ہزار سے زائد صارفین کے اکاؤنٹس بند کر رہے ہیں، اور اس تعداد میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
معلومات کی آزادی کی درخواست کے ذریعے حاصل کیے گئے اعداد و شمار میں انکشاف ہوا ہے کہ 2016 سے 17 میں، بینکوں نے 45 ہزار اکاؤنٹس بند کیے تھے۔ اس کے بعد سے اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہوا ہے۔، اور یہ تعداد سال 2021-22 میں 343,000 اکاؤنٹس تک پپہنچتے ہوئے یومیہ ہزار اکاؤنٹس تک پہنچ گئی ہے۔
جب لوگوں یا اداروں کے بینک اکاؤنٹس بند ہوتے ہیں تو انہیں اکثر اس بارے میں بہت کم یا کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ ایسا کیوں ہوا، حالانکہ بینک بعض اوقات کہتے ہیں کہ ایسا منی لانڈرنگ اور دھوکہ دہی جیسے مالی جرائم کے خدشات کی وجہ سے ہوا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 90,000 افراد کو ”سیاسی طور پر بے نقاب افراد“ کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کچھ سیاستدانوں یا ان کے خاندانوں کو بینکوں نے مسترد کر دیا ہے۔ ان میں کچھ ایم پیز اور دیگر شخصیات شامل ہیں جن کے حوالے سے ذاتی فائدے کے لیے اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرنے کا خدشہ ہے۔
جمعہ کو اینٹی بریگزٹ مہم چلانے والی جینا ملر نے ایف سی اے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قدم اٹھائیں کہ نئی پارٹیاں اور ایم پیز بینکنگ سروسز تک رسائی حاصل کر سکیں۔
یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب ڈیجیٹل بینک مونزو نے انہیں حال ہی میں مطلع کیا کہ ان کی پارٹی کا اکاؤنٹ ستمبر میں بند ہو جائے گا۔
ہفتے کے آخر میں توانائی کے سکریٹری گرانٹ شیپس نے انکشاف کیا کہ وہ اور ان کا خاندان ڈیبینکنگ کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ سیاسی طور پر بے نقاب شخص ہے۔
دوسرے لوگ جو برطانیہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور اکثر بیرون ملک سے ادائیگی کرتے یا وصول کرتے تھے اانہوں نے بھی اپنے اکاؤنٹس کو بند پایا ہے۔
اب تک بینک اکثر منی لانڈرنگ کے ضوابط کے پیچھے چھپے رہتے ہیں اور یہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ اکاؤنٹ کیوں بند کیا گیا ہے۔
اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایف سی اے نے کہا کہ بینکوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی نگرانی اکاؤنٹس کی بندش میں کچھ اضافے کی وضاحت کر سکتی ہے۔ برطانیہ میں تقریباً 75 ملین اکاؤنٹس ہیں۔
حکومت نے بینک اکاؤنٹس کی بندش کے قوانین کو تبدیل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
Comments are closed on this story.