نگران حکومت کیلئے احتجاج کے دوران بنگلہ دیش میں بسیں نذرآتش، دھماکے، پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ
بنگلہ دیش میں نگراں حکومت قائم کرانے کیلئے اپوزیشن نے مظاہروں کے دوران ڈھاکہ کی سڑکیں بند کردیں، بسیں جلادیں اور پیٹرول بموں سے دھماکے کیے۔ خالدہ ضیا کی بی این پی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے شدید پتھراؤ بھی کیا۔ پولیس نے جواب میں ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل برسائے۔
پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش میں انتخابات کا انعقاد نگراں حکومت کے تحت نہیں کیا جاتا بلکہ مدت پوری کرنیوالی حکومت کے تحت ہی الیکشن کرائے جاتے ہیں۔ ماضی میں نگراں حکومت قائم کی جاتی تھی لیکن 2011 میں بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے نگراں حکومت کا نظام ختم کردیا۔
حسینہ واجد 2009 سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں اور نگراں حکومت کا نظام ختم ہونے کے بعد مسلسل الیکشن جیتی رہی ہیں۔
خالدہ ضیا کی جماعت کا مطالبہ ہے کہ جنوری 2024 کے انتخابات سے پہلے نگراں حکومت قائم کی جائے۔ اس معاملے پر پہلے بھی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ جمعہ کو ڈھاکہ میں بہت بڑا احتجاج ہوا جس کے بعد ہفتہ کے روز تصادم کے واقعات پیش آئے۔ پولیس کے مطابق 20 اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور 90 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
حکمران جماعت عوامی لیگ نے اتوار کو (آج) جوابی مظاہروں کی کال دے دی ہے جس کے نتیجے مین تصادم کے خدشات ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے پیر کو بڑے مظآہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ڈھاکہ کی گلیوں میں شدید کشیدگی ہے، مہنگائی کے سبب بھی لوگوں میں حکومت کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔
بی این پی کے اراکین کئی برسوں سے حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔ اب بین الاقوامی برادری کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی اظہار کو کچلنے اور طالمانہ ہتھکنڈے اپنانے میں ملوث ہے۔
Comments are closed on this story.