گوادر سمیت چار مقامات پر چین بحری اڈے بنائے گا، گارڈین کا دعویٰ
چین کی فوج بیرون ملک بحری اڈوں کی میزبانی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، ایک تجزیے کے مطابق چینی حکومت پُرامیدہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کرے گی اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پابندیوں کیخلاف مزاحمت کرنے کی اپنی صلاحیت مضبوط کرے گی۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق امریکا میں قائم تحقیقی ادارے ایڈ ڈیٹا کے ایک تجزیے کے مطابق سری لنکا میں ہمبنٹوٹا، استوائی گنی میں باٹا اور پاکستان میں گوادر وہ 3 ممکنہ مقامات ہیں جہاں آئندہ 2 سے 5 سالوں میں چینی بحری اڈے قائم کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس تجزیے کیلئے مستقبل میں چینی بحری اڈوں کے لیے آٹھ اہم آپشنز کی فہرست تیار کرنے کے لیے چین کے سرکاری بینکوں کی جانب سے بندرگاہ کے منصوبوں کے لیے جاری کی جانے والی ترقیاتی فنانسنگ، موجودہ بنیادی ڈھانچے کی اسٹریٹجک قدر اور میزبان ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات سمیت دیگر عوامل پر غور کیا گیا۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این) کا فی الحال ہارن آف افریقہ کے ساحل پر جبوتی میں صرف ایک غیر ملکی فوجی اڈہ ہے۔
جیسے جیسے امریکہ اور چین کے درمیان دشمنی بڑھتی جا رہی ہے، بیجنگ واشنگٹن کی بیرون ملک سمندری طاقت کے قریب پہنچ رہا ہے۔ امریکا کے برعکس چین بین الاقوامی دفاعی اتحاد یوں کا حصہ نہیں بلکہ اس کا واحد باضابطہ دفاعی معاہدہ شمالی کوریا کے ساتھ ہے۔ ایڈ ڈیٹا کے محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے چین کی فوجی ترقی کے لیے بیرون ملک بحری اڈوں کی ترقی اولین ترجیح ہے۔
مستقبل کے عزائم چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہوسکتے ہیں۔ ایڈ ڈیٹا کی جانب سے شارٹ لسٹ کیے گئے8 اڈوں میں سے 4 افریقہ میں ہیں۔
اگرچہ چین کے سب سے اہم سمندری عزائم بحیرہ جنوبی چین اور آبنائے تائیوان میں ہیں لیکن رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں ”مکمل طور پر چینی مین لینڈ اور گھریلو بحری اڈوں“ سے کی جا سکتی ہیں۔ اس سے چین کو جہاز رانی کے راستوں کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی، خاص طور پر مغربی پابندیوں کی صورت میں۔
ایڈ ڈیٹا کے مطابق، سری لنکا میں ہمبنٹوٹا بندرگاہ کو مستقبل قریب میں پی ایل اے این بیس کے لئے سب سے زیادہ ممکنہ مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ بندرگاہ 2010 میں کھولی گئی تھی اور اسے چائنا ایگزم بینک کی جانب سے 30 کروڑ 67 لاکھ ڈالر کے قرض کے ذریعے فنانس کیا گیا تھا۔ ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ بیجنگ ”تنصیب پر براہ راست کنٹرول“ رکھتا ہے۔
2017 میں جب سری لنکا کی حکومت اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا شکار ہو گئی تھی تو ایک چینی فرم نے 99 سالہ لیز پر بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ہمبنٹوٹا کو اکثر چین کی ”قرضوں کے جال کی ڈپلومیسی“ کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ کہانی غیر ملکی اڈے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چین کی ٹھوس حکمت عملی کے بجائے سری لنکا کی حکومت کے عدم استحکام کی عکاسی کرتی ہے۔
منگل کے روزامریکی سیٹلائٹ تصاویر بنانے والی کمپنی بلیک اسکائی نے کمبوڈیا میں ریم نیول بیس کی تازہ ترین تصاویر جاری کیں، جہاں امریکی حکومت کو شبہ ہے کہ بیجنگ خطے میں اپنی بحری موجودگی کو بڑھانے کے لیے ایک تنصیب تعمیر کر رہا ہے۔
یہ اڈہ چین کی مدد سے تعمیر کیا جا رہا ہے لیکن بیجنگ اور کمبوڈیا کی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے کہ وہاں پیپلز لبریشن آرمی کی موجودگی کی اجازت دی جائے گی۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریم میں فوجی اڈے سے چین کو اہم تزویراتی فوائد حاصل ہوں گے جن میں خلیج تھائی لینڈ تک رسائی بھی شامل ہے۔
تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اڈے پر ایک گھاٹ مکمل ہونے کے قریب ہے اور حیہ یرت انگیز طور پر چین کے جبوتی اڈے سے ملتا جلتا ہے۔ بلیک اسکائی نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ طیارہ بردار بحری جہازوں سمیت جنگی جہازوں کو لنگر انداز کرنے کے لیے یہ گھاٹ کافی لمبا ہے، جس سے اس سے قبل کے اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ تنصیب گہرے پانی کے جہازوں کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔
ایڈ ڈیٹا نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کمبوڈیا کی بحریہ صرف چھوٹی گشتی کشتیاں چلاتی ہے اور اسے اپنے استعمال کے لیے گہرے چینلز کی ضرورت نہیں ہے۔
Comments are closed on this story.