بھارت میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم کیخلاف مرکزی حکومت سامنے آگئی
بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش وقف بورڈ کی جانب سے احمدیہ کمیونٹی کو کافر اور غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد منظور کرنے کے بعد مرکزی حکومت کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ مہم کو ’نفرت انگیز‘ قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں کسی وقف بورڈ کے پاس کسی بھی شخص یا کمیونٹی کو کسی مذہب سے نکالنے کا اختیار نہیں ہے۔
آندھرا پردیش کے وقف بورڈ نے فروری 2012 کے ایک پرانے فتوے کی بنیاد پر قرار داد منظور کرتے ہوئےریاست کے قاضیوں سے کہا تھا کہ وہ احمدیہ برادری کے لوگوں کا نکاح نہ پڑھائیں کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔
اسی قرارداد کی بنیاد پر وقف بورڈ نے حال میں احمدیہ کمیونٹی کو غیر مسلم اور کافر قرار دیتے ہوئے ان کی املاک وک وقف کی املاک سے معطل کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ احمدیہ برادری کی املاک براہ راست اپنے زیرانتظام لیں۔
اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارت کی وزیراقلیتی امور سمرتی ایرانی نے کہا کہ، ’تمام وقف بورڈ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔ کوئی وقف بورڈ پارلیمنٹ کے وقار کے خلاف اور اس کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ کسی وقف بورڈ کو فتویٰ کو سرکاری حکم میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے‘۔
اس سے قبل منگل 25 جولائی کوممتاز مسلم تنظیم جمیعت علمائے ہند نے احمدیہ برادری کے بارے میں آندھرا پردیش وقف بورڈ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ یہ تمام مسلمانوں کا ”متفقہ موقف“ ہے۔
سمرتی ایرانی نے کہا کہپارلیمنٹ کے قانون کے تحت کسی وقف بورڈ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص یا کمیونٹی کو کسی مذہب سے نکال دے۔ ہم نے آندھرا پردیش کے چیف سکریٹری سے جواب مانگا ہے۔ ن سے درخواست کی ہے کہ وہ حقائق ہمارے سامنے رکھیں کیونکہ احمدیہ مسلم کمیونٹی نے اقلیتی امور کی وزارت سے اپیل کی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند کے موقف کی حمایت پر وزیراقلیتی امور نے کہا کہ کسی بھی غیر ریاستی عناصر کو پارلیمنٹ کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کا اختیار نہیں۔
اقلیتی امور کی وزارت نے آندھرا پردیش حکومت کو سخت الفاظ میں لکھے جانے والے خط میں بورڈ کی قرارداد کو ’نفرت انگیز مہم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات پورے ملک میں پڑ سکتے ہیں۔
چیف سکریٹری آندھرا پردیش کے ایس جواہر ریڈی کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی جانب سے 20 جولائی 2023 کو ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ وقف بورڈ احمدیہ کمیونٹی کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس کمیونٹی کو اسلام کے دائرے سے باہر قرار دینے والی غیر قانونی قراردادیں منظور کر رہے ہیں۔
سمرتی ایرانی نے کہا کہ وہ ریاست کے چیف سکریٹری کے جواب کا انتظار کر رہی ہیں۔
احمدی کمیونٹی بھارتی حکومت کی شُکر گزار
دوسری جانب احمدیہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد کی مذمت کرنے پر مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر شخص کو اپنی پسند کے کسی بھی مذہب سےاپنی شناخت کا حق حاصل ہے اور کوئی تنظیم یا ادارہ انہیں اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
تصویر: ری پبلک
احمدیہ مسلم جماعت کے ترجمان طارق احمد نے کہا کہ ایک مسلم تنظیم کے جاری کردہ حکم (فتوے) کی بنیاد پر ہندوستان میں ایک ریاستی وقف بورڈ نے احمدیہ مسلم کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس معاملے میں مداخلت کی اور کہا کہ یہ قرارداد قانون کے خلاف اور غیر آئینی ہے ، جس کے لئے ہندوستان میں احمدیہ مسلم کمیونٹی وزارت کا شکریہ ادا کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ احمدی مسلمانوں کے کھلے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے والی پریس ریلیز جاری کرنے سے ملک میں بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ قابل ستائش ہے کہ حکومت نے اس کی روک تھام کے لئے فوری قدم اٹھایا۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہےجس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ بھائی چارے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہتے ہیں۔ آئین نے انہیں یہ حق دیا ہے کہ وہ جو چاہیں تبلیغ کریں۔ لیکن وقف بورڈ اور مسلم تنظیموں کی طرف سے احمدیہ مسلمانوں کے حقوق چھیننے کی حالیہ کوششیں امن میں خلل ڈالنے اور لوگوں کو احمدی مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے ہیں۔
بھارتی احمدیہ کمیونٹی
بھارت میں احمدیہ کمیونٹی کو 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کے ایک فرقے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اُس وقت اِن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی۔ بیشتر احمدی بھارتی پنجاب کے قصبے قادیان میں رہتے ہیں جس میں احمدی فرقے کے بانی مرزا غلام احمد کی پیدائش ہوئی تھی۔
کمیونٹی کے مطابق مرزا غلام احمد نے 20ویں صدی کے اوائل میں اسلام کے احیا کی تحریک چلائ اور اُن کے پیروکارخود کو ’احمدیہ مسلم‘ کہتے ہیں۔
اس جماعت کا قادیان میں ایک بہت بڑا مرکز ہونے کے علاوہ دلی، مہاراشٹر، اڑیسہ، بنگال اور بہارکی ریاستوں میں احمدیہ کمیونٹی کی کئی مساجد اورمرکز ہیں۔
Comments are closed on this story.