Aaj News

جمعرات, دسمبر 19, 2024  
16 Jumada Al-Akhirah 1446  

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور، نگراں حکومت کے اختیارات میں ’محدود‘ اضافہ

لامحدود اختیارات دینے کا فیصلہ واپس، پیپلز پارٹی اورجےیوآئی (ف) نے بل کی حمایت سے انکارکردیا تھا
اپ ڈیٹ 26 جولائ 2023 11:38pm
تصویر / ٹوئٹر
تصویر / ٹوئٹر

الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل پارلیمنٹ سے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے، ترمیمی بل پر انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے اجلاس میں دفعہ 230 سے متعلق پیپلزپارٹی اور جے یوآئی ف کے اختلافات ختم ہو گئے، نگراں حکومت کو وسیع اور لا محدود اختیارات نہ دینے پر اتفاق کرلیا گیا۔تاہم بل کی منظوری سے نگران حکومت کے اختیارات میں کچھ اضافہ ضرور ہوگا۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد مشترکہ اجلاس 7 اگست دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

الیکشن اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کردہ الیکشن ترمیمی بل 2023 کے اہم نکات کے مطابق بل میں 54 ترامیم شامل کی گئی ہیں، جن میں الیکشن ایکٹ 230 میں ترمیم بھی شامل ہے۔

ترمیم کے مطابق پبلک پرائیویت پاٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ 2017، گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ2022اور پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈیننس2000 کے تحت جاری موجودہ دوطرفہ یا کثیر جہتی معاہدوں کے سلسلے میں نگران حکومت کو جہاں اقدامات یا فیصلوں کی ضرورت ہے وہ کر سکے گی۔

نگران حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کرسکے گی، اسے دو فریقی اور کثیرفریقی جاری معاہدوں پر فیصلوں کا بھی اختیار نہیں ہوگا، تاہم نگران حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہوگا۔

بل کےمطابق پریزائڈنگ افسر نتیجے کی فوری تصویر بناکر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسر کو بھیجنے کا پابند ہوگا، انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریذائیڈنگ آفیسر اصل نتیجہ فیزیکلی پہنچانے اور الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا، تاخیر کی صورت میں پریذائیڈنگ افیسر کو ٹھوس وجہ بتانا ہوگی۔

ترمیم کے بعد کامیاب امیدوار کو 60 روز میں قومی اسمبلی یا سینٹ کی نشست پر حلف لینے کاپابند بنایاجائے گا، حلف نہ لینے کی صورت ہمیں سیٹ خالی تصورکی جائے گی، جب کہ حتمی نتائج کے 3 روزمیں سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کریں گی۔

ترمیم کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ جبکہ صوبائی نشست کیلئے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کئے جا سکیں گے، سیکورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی صورت میں پارٹی کو 2 لاکھ جرمانہ ہوگا۔

سیکشن 230 کے حوالے سے فیصلہ

بل پیش کرنے والے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کل یہاں جو باتیں ہوئیں ان کی وضاحت ضروری ہے، آج چیئرمین انتخابی اصلاحات نے دوبارہ مشاورت کی، سیکشن 230 کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ آج چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی نے دوبارہ مشاورت کی اورن سیکشن 230 کے حوالہ سے فیصلہ کیا گیا ہے۔ روزمرہ امور کے ساتھ اضافی اختیارات اور تقرروتبادلے کی ترامیم تھیں جنہیں غیر ضروری قرار دیا گیا اور اب یہ ترامیم اس بل کا حصہ نہیں رہیں۔

وزیر قانون کے مطابق اب صرف وہ ترامیم بل کا حصہ ہیں جن پر 100فیصد اتفاق پایا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی اور جے آئی یو (ف) کا انکار

اس سے قبل حکومت اتحادی جماعتوں نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے متعلق بل کی حمایت سے انکارکردیا تھا جنہیں م الیکشن اصلاحات پر بنائی گئی کمیٹی کے اجلاس میں منایا گیا۔

حکومت کے اہم اتحادیوں جے یو آئی ( فضل الرحمان گروپ) اورپیپلزپارٹی کو منانے کر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر سمیت ایازصادق اورمرتضیٰ جاوید بل کی حمایت حاصل کیلئےسرگرداں تھے۔

واضح رہے کہ اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس بل کے تحت نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے سے متعلق شق پر شدید تحفظات کااظہار کیا جارہا تھا۔

الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 کے تحت کہا گیا ہے کہ نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے اوروہ ملک کے بہتر مفاد میں فیصلے کرسکیں۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی اہم ترامیم

الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترامیم کے تحت نگراں حکومتوں کے مالیاتی اختیارات میں اضافہ تجویز کیا گیا تھا، اس کے علاوہ کہا گیا تھا کہ ایسے اقدامات بھی کیے جا سکیں گے جو عالمی اداروں اور غیرملکی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں سے متعلق ہوں۔

ترامیم میں قومی اسمبلی کے لئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ جبکہ صوبائی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے خرچ کئے جاسکیں گے۔ ترامیم کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں دو لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

ترامیم میں نگراں حکومتوں کے مالی اختیارات بڑھانے کے ساتھ انتخابی ضابطہ اخلاق میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

ترامیم کے مطابق کاغذات نامزدگی فارم میں بھی تبدیلیاں ہوں گی، عام انتخابات کے تین دن کے اندر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں پر ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوگی۔

مزید یہ کہ انتخابی عذرداری پر الیکشن کمیشن کو تیس دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا، دوسری صورت میں جیتنے والا امیدوار فاتح قرار پائے گا۔

اس کے علاوہ ریٹرننگ افسر بغیر وقت ضائع کئے نتائج کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا، رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی، حلقہ میں ووٹرز کی تعداد کی تبدیلی پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکے گی۔

ترامیم کے مطابق حلقوں کی فہرست پر کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل تیس دن کے اندر سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکے گی۔

نئے شناختی کارڈ والوں کا ڈیٹا نادرا فوری طور پر الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا پابند ہوگا تاکہ ووٹرز لسٹ میں بروقت اندراج ہوسکے۔

اسلام آباد

National Assembly