سائفروآڈیو لیک: ایف آئی اے کی چیئرمین پی ٹی آئی سے دو گھنٹے تحقیقات
ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی سے دوگھنٹے تک سائفر گمشدگی اور آڈیو لیک سمیت دیگر سوالات بھی کیے۔
ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی کو آج 12 بجے سائفر اور آڈیو لیک کی تحقیقات کے لئے طلب کررکھا تھا، تاہم چیرمین پی ٹی آئی دو گھنٹے کی تاخیرسے دن دو بجے ایف آئی اے ہیڈ کواٹر پہنچے۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی سے سائفر گمشدگی، آڈیو لیک سمیت دیگر سوالات بھی کیے، سابق وزیراعظم نے دو گھنٹے سے زائد تحقیقاتی ٹیم کے سوالات کے جوابات دیے۔
تحقیقاتی ٹیم نے چیرمین پی ٹی آئی سے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے، اور سائفر پر آڈیو لیک جس میں سائفر پر کھیلنے کی بات کی جارہی تھی کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے۔
تحقیقاتی ٹیم نے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے جوابوں سے بھی سوالات پوچھے، سوال نامے میں سائفر مسودے کی گمشدگی اور آڈیو لیکس کے حوالے سے بھی سوال شامل تھے۔
جے آئی ٹی نے سابق وزیراعظم کے مختلف بیانات کے حوالے سے بھی سوالات کیے، چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے منٹس موجود ہیں۔
ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے تینوں رہنماؤں اور سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیانات کی روشنی میں مزید تحقیات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سائفر کے معاملے پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور اُن کے قریبی ساتھیوں کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کررہی ہے۔
عمران خان نے سائفر پر کیا کہا
کہانی شروع ہوتی ہے28 مارچ کی ایک شام کو۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان پریڈ گراؤنڈ میں عوام کے جمِ غفیر کے سامنے اپنی جیب سے ایک کاغذ لہرا کر فرماتے ہیں: ”یہ ہے ایک خط۔“ یعنی یہ ہے میرا نیا بیانیہ ہے۔
اس وقت عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی کوشش باہر سے کی جارہی ہے اور بیرونِ ملک سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جارہا ہے۔
عمران خان نے لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے مزید کہا کہ اس سازش کا انھیں کئی ماہ سے علم تھا کہ یہ سازش ہو رہی ہے اور ”یہ جو آج اکٹھے ہوگئے ہیں، یہ جو آج قاتل اور مقتول اکٹھے ہوگئے، جنھوں نے اکٹھا کیا ہے، ان کا بھی ہمیں پتا ہے۔“
سابق وزیراعظم عمران خان نے اس وقت جلسے سے مزید کہا تھا کہ حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیسہ باہر سے آیا ہے۔ لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں، زیادہ تر انجانے میں لیکن کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ چونکہ گیم ابھی جاری تھی، لہٰذا انہوں نے ایک کھڑکی ساتھ ہی کھولتے ہوئے ”منحرف“ اراکین کو یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے خلاف جو ووٹ دینے جائے گا، میں ان سے یہ کہوں گا کہ یہ نہ کرنا۔
خط کے ثبوت ہونے کا دعویٰ
عمران خان نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ ”میرے پاس جو خط ہے یہ ثبوت ہے، اور اگر کوئی بھی شک کر رہا ہے تو میں آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔“
عمران خان کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس سے ملاقاتیں کر رہا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے پر چل رہے ہیں؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت جاتی ہے جائے، جان جاتی ہے جائے، ان کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔
سائفر ہے کیا؟
سائفر کسی بھی اہم اور حساس نوعیت کی بات یا پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ کار ہے جس میں عام زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈ کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں ایسے افسران ہیں ، جنھیں سائفر اسسٹنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔
Comments are closed on this story.