Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

’گھریلو ملازمہ پر تشدد میں ملوث سول جج اہلیہ سمیت روپوش‘، کیس کی تحقیقات تعطل کا شکار

مقدمہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی، ترجمان پولیس
فوٹو ــ اسکرین گریب
فوٹو ــ اسکرین گریب

سرگودھا میں سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن ملازمہ کی صحت کے حوالے سے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے پرنسپل پی جی ایم آئی کو تفصیلات فراہم کردی ہیں، جن کے مطابق متاثرہ لڑکی کو برین سرجری کی ضرورت نہیں، دماغی سوزش کو بھی ادویات سے کنٹرول کرلیا جائے گا۔ دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے ہیں۔

وفاقی پولیس کی ٹیم متاثرہ بچی کے والدین سے ملنے لاہور روانہ ہوگئی ہے، پولیس ٹیم والدین سے کیس کے حوالے سے مزید تفتیش کرے گی۔

پولیس کے مطابق ملزمہ ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئی ہے، جس کی گرفتاری کیلئے پولیس کے چھاپے جاری ہیں، گھروں کی مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے۔

پولیس نے گزشتہ روزسول جج کے گاؤں کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا، پولیس نے اسلام آباد، گوجرانوالا اور آبائی گاؤں کی رہائش گاہوں کی مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تینوں مقامات پر سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

پولیس کی جانب سے ملزمہ کے موبائل نمبر کی بھی ٹریسنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈان نیوز نے اسلام آباد پولیس کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ سول جج اور ان کی اہلیہ کی روپوشی کے باعث کیس کی تحقیقات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس ٹیموں نے اسلام آباد اور لاہور میں سول جج کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے، تاہم دونوں گھر مقفل ملے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متعلقہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) نے تاحال کیس کی تفصیلات اور زونل پولیس کو دستیاب دستاویزات تفتیشی ونگ کے ساتھ شیئر نہیں کیں، اس لیے تفتیش میں تاخیر کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کے مطابق ملازمہ کے والد منگا خان کی شکایت اور میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ جس میں گلا گھونٹنے کے نشانات سمیت لڑکی کے جسم پر 15 زخموں کا ذکر ہے، وہ سرگودھا پولیس نے کیپٹل پولیس کو فراہم کیا لیکن مشتبہ شخص پر گلا گھونٹنے، تشدد کرنے اور زخمی کرنے سے متعلق دفعات نہیں لگائی گئیں۔

اخبار نے دعویٰ کیا کہ سرگودھا پولیس کی جانب سے متعدد درخواستوں کے بعد کیپٹل پولیس نے ایک کمزور ایف آئی آر درج کی۔

گھریلو ملازمہ کی میڈیکل رپورٹ جاری

جنرل ہسپتال لاہور کے بارہ رکنی بورڈ نے تشدد کا نشانہ بننے والی گھریلو ملازمہ کی میڈیکل رپورٹ پنجاب حکومت کو جمع کروادی ہے۔

گھریلو تشدد کی شکار رضوانہ جنرل اسپتال میں زیرِ علاج ہے، ڈاکٹرز کا کہنا ہے رضوانہ کے زخموں کی دن میں دو بار ڈریسنگ کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے باعث بچی کے جسم میں خون کی گردش نہیں ہورہی، تشدد سے لڑکی کا جگر شدید متاثر ہے، انفیکشن کے باعث لڑکی کا بلڈ پریشر گرتا جارہا ہے۔

میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ شدید تشدد کے باعث لڑکی کا ذہنی توازن نارمل نہیں، ڈر، خوف اور شدید زخموں کے باعث لڑکی بات کرنے سے قاصر ہے، تشدد اور شدید انفیکشن کی وجہ سے لڑکی کو جسم پر شدید سوجن ہے، لڑکی حالت خراب ہونے کی وجہ سے کچھ کھا پی نہیں سکتی، لڑکی کو خوراک کی نالی لگادی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق لڑکی کے خون میں ریڈ، وائٹ بلڈ سیلز، پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہوگئے ہیں، انفیکشن اور زخموں کے باعث لڑکی کی شوگر بہت کم ہوگئی ہے، دونوں بازو فریکچر ہیں، تشدد سے لڑکی کی آنکھیں متاثر ہوئی ہیں۔

میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکی کو آئی سی یو میں رکھا جائے گا، بلڈ پریشر بحال کرنے کیلئے ویسوپریسر سپورٹ پر رکھا جائے گا۔

میڈیکل بورڈ نے لڑکی بون میرو بائیوپسی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سول جج کی اہلیہ کیخلاف مقدمہ درج

وفاقی پولیس نے تھانہ ہمک میں اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سول جج کی اہلیہ سومیہ بی بی کے خلاف کم سن ملازمہ پر تشدد کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

وفاقی پولیس نے بچی کے مبینہ الزام پر اس کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کی دفعات شامل کی ہیں۔

متاثرہ بچی کے والد منگا خان نے پولیس کو دی گئی درخواست میں بتایا کہ انہوں نے تقریباً چھ ماہ قبل بیٹی رضوانہ کو گھریلو کام کاج کے لیے سول جج عاصم حفیظ کے گھر بھیجا اور ماہانہ تنخواہ 10 ہزار روپے طے پائی۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی جج صاحب کے گھر کام کرنے چلی گئی، وقتا فوقتاً جج صاحب کی اہلیہ سومیہ ان کی بات بذریعہ ٹیلی فون بیٹی سے کروا دیتی تھیں۔

والد نے کہا کہ ’23 جولائی کو میں اپنی بیوی شمیم اور سالے محمد فیاض کے ہمراہ اپنی بیٹی کو دیکھنے اور ملنے جج صاحب کے گھر گیا، ہم جیسے ہی دروازے سے داخل ہوئے تو ایک کمرے سے میری بچی کے رونے کی آواز آئی، آواز سن کر مجھے تشویش ہوئی تو ہم تینوں نے اس کمرے کا رخ کیا، اور دیکھا کہ میری بیٹی زخمی حالت میں پڑی ہے اور زارو قطار رو رہی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کے سر کے پچھلی جانب زخم تھا، سر میں چھوٹے چھوٹے بھی زخم تھے جن میں چھوٹے چھوٹے کیڑے پڑے ہوئے تھے، میں نے اپنی بیٹی کو مزید دیکھا تو دونوں بازو زخمی تھے، دونوں ٹانگیں زخمی تھیں، پورا چہرہ زخمی تھا، منہ کھول کر دیکھا تو دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا، دونوں آنکھیں دونوں ہونٹ اور ناک پر سوجن تھی، میں نے اور میرے ساتھ میری بیوی اور سالے نے جسم دیکھا تو اس کی پیٹھ پر بھی زخم تھے اور سلانٹوں کے نشان تھے، میری بیٹی کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور پورے جسم پر چھوٹے چھوٹے کافی زخم تھے، جبکہ گلے پر بھی نشان موجود تھے جیسے کوئی گلہ گھونٹتا رہا ہو‘۔

منگا خان کے مطابق ’بیٹی سے پوچھا کہ تمہاری یہ حالت کس نے کی تو رضوانہ نے بتایا کہ حج صاحب کی بیوی سومیہ بی بی روزانہ مجھے سوٹوں، ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی، رات کو مجھے بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھی اور تقریباً جب سے میں یہاں آئی ہوں اس نے مجھے کمرہ میں بند کر کے جس بے جا میں رکھا ہوا ہے، مجھ پر سومیہ بی بی نے بے حد ظلم کیا ہے‘۔

ایف آئی آر کے مطابق بچی نے والد کو کہا کہ’جان کے خوف سے میں آپ کو نہیں بتاتی تھی، خدا کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے لے جاؤ’۔

والد نے پولیس کو بتایا کہ ہم فی الفور وہاں سے اپنی بیٹی کو اٹھا کر آج صبح سر گودھا پہنچے اور قریب تین بجے صبحڈسٹرکٹ پہیڈکوارٹر سرگودھا ایمر جنسی میں آئے، جہاں میری بیٹی کی حالت غیر ہو گئی، تو ڈاکٹروں نے اسے لاہور جنرل اسپتال ریفر کر دیا۔

ابتدائی میڈیکل رپورٹ

ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ چوٹوں کے نشانات ہیں، میڈیکل رپورٹ کے مطابق 15 چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔

گھریلو تشدد کا شکار نوعمر لڑکی کا لاہور جنرل اسپتال میں علاج جاری ہے، بچی کے علاج معالجے کے لئے 12 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے، جس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جودت سلیم ہوں گے۔

رضوانہ سرجیکل آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔

پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے بھی بچی کی عیادت کی ہے اور کہا ہے کہ علاج معالجے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔

بیان میں تضاد

قبل ازیں والدین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جج کی اہلیہ نے زیور چوری کا الزام لگا کر بیٹ سے بچی پر تشدد کیا، بچی کی حالت خراب ہونے پر جج کی اہلیہ اسے والدہ کے سپرد کرکے چلی گئی۔

سول جج کی آڈیو

سول جج عاصم حفیظ کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعے سے لاعلم ہوں، میرا واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیوی کا زیورغائب ہے لیکن تشدد نہیں کیا گیا۔

جج نے کہا کہ بچی کو اہلیہ نے نہیں اس کی اپنی والدہ نے مارا ہے، بچی کو کہا تمہیں گھر چھوڑ آئیں، تو اس نے اپنا سر دیوار میں دے مارا، واقعے کا علم ہونے کے بعد خود لاہور جا رہا ہوں۔

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تعینات سول جج عاصم حفیظ نے ایک آڈیو میں کہا کہ بچی رضوانہ دسمبر 2022 سے ہمارے گھر ملازمہ تھی، بچی نے ایک ماہ قبل گملوں سے مٹی کھائی جس کی وجہ سے اس کی اسکن خراب ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے گوجرانوالہ کے ڈاکٹر سے بچی کی بیماری کی تشخیص کروا کر دوا لگا دی تھی، بچی اسکن ٹھیک ہونے کے کچھ دن بعد زخم کو چھیل دیتی تھی، مجھے بچی کے سر میں موجود چوٹوں کا علم نہیں ہے کیونکہ بچی سر پر اسکارف باندھتی تھی۔

جج عاصم حفیظ کے مطابق اہلیہ نے بتایا کہ بچی کام نہیں کرتی، تو میں نے کہا اسے اس کے گھر چھوڑ آؤ، میری اہلیہ ڈرائیور کے ہمراہ بچی کو سرگودھا اس کے والدین کے پاس چھوڑ آئی تھیں۔

سول جج نے مزید کہا کہ بچی ہمیں کہتی تھی کہ اگر میں واپس گئی تو میری والدہ مجھے ماریں گی، بچی گھر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن ہم اس کو چھوڑ آئے، لاہور جا رہا ہوں بچی کو وہیں ریفر کیا گیا ہے، چاہتا ہوں بچی جلد صحت یاب ہو جائے۔

پولیس کا بیان

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈی پی او سرگودھا محمد فیصل کامران، ایس پی سٹی اور اے ایس پی سٹی کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے۔

ڈی پی او سرگودھا فیصل کامران نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں، بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے زخموں میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔

اے ایس پی سٹی سرگودھا عثمان میر کا کہنا ہے کہ بچی کو ملازمت پر بھجوانے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے، واقعے پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ترجمان سرگودھا پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی پی او سرگودھا کی ہدایت پر ایس پی انوسٹی گیشن، اسلام آباد پولیس سے رابطے میں رہ کر قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں، سرگودھا پولیس اس سارے معاملے میں مضروب لڑکی اور اس کے ورثاء کو مکمل قانونی معاونت فراہم کر رہی ہے۔

جبکہ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقدمہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی۔

اسلام آباد

child torture

Civil Judge