Aaj News

ہفتہ, دسمبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Akhirah 1446  

بھارت میں ’اوپن ہائیمر‘ کے رومانوی مناظر پرتنازع ، کیا گیتا کا ترجمہ غلط تھا؟

اوپن ہائیمر میں کہے گئے گیتا کے مشہور شلوک کی حقیقت کیا ہے؟
شائع 22 جولائ 2023 03:22pm

16 جولائی 1945 کو ایٹم بم کے مؤجد ”اوپن ہائیمر“ (Oppenheimer) نے جب پہلے دھماکے کا مشاہدہ کیا تو ان کی زبان سے ہندوؤں کی مذہبی کتاب ”بھگوت گیتا“ کا ایک شلوک بے ساختہ نکل پڑا۔ اوپن ہائیمر نے کہا، ’اب میں موت ہوں، دنیا کو تباہ کرنے والا۔‘

اور جب اس موضوع پر فلم بنی تو بھارت میں اس پر حسبِ توقع تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

ہالی ووڈ کے مشہور ڈائریکٹر کرسٹوفر نولن کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ”اوپن ہائیمر“ اس وقت دنیا بھر کے سنیما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہے، مگر بھارت میں اس پر تنیقد کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی خبر رساں ادارے ”ہندوستان ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ناظرین ”اوپن ہائیمر“ میں دکھائے گئے رومانوی مناظر سے ناخوش ہیں، حالانکہ بھارت میں ریلیز سے قبل ان مناظر کو دھندلا دیا گیا تھا۔

لیکن ان سینسر شدہ مناظر کے پیچھے سنائی دینے والے جملوں کو بھارت میں توہین آمیز قرار دیا گیا ہے۔

کرسٹوفر نولن کی یہ فلم کائی برڈ اور مارٹن جے شیروِن کی 2005 میں شائع ہونے والی پولٹزر ایوارڈ یافتہ کتاب ”امریکن پرومیتھیس: دی ٹرائمپ اینڈ ٹریجیڈی آف جے روبرٹ اوپن ہائیمر“ پر مبنی ہے۔

ٹوئٹر پر کی گئی ایک پوسٹ میں لبرل ہندووا نے لکھا ’سنسر بورڈ نے فلم سے گالیاں تو کاٹ دیں مگر کرداروں کے جنسی مناظر کے دوران گیتا کا پڑھا جانا اسی طرح جانے دیا گیا ۔‘

فلم کے ان مناظر پر تنازع ریلیز سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔

کرسٹوفر نولن کی بیس برس میں یہ پہلی فلم ہے جسے برہن اور جنسی مناظر کی وجہ سے ”آر“ ریٹنگ دی گئی ہے۔

کرسٹوفر نولن عام طور پر اپنی فلموں میں جنسی مناظر شامل نہیں کرتے، مگر ”اوپن ہائیمر“ میں ان کی زندگی اور پارٹنر سے تعلق اور رغبت دکھانے کے لیے ایسے مناظر شامل کرنا انہوں نے درست جانا۔

اوپن ہائیمر نے گیتا کا غلط ترجمہ بیان کیا؟

اوپن ہائیمر کو ”فادر آف ایٹم بم“ (ایٹم بم کا باپ) کہا جاتا ہے، جو مین ہیٹن پروجیکٹ کی جائے پیدائش لاس الاموس لیبارٹری میں ”وار لیڈر“ کے طور پر جانے جاتے تھے۔

ایٹم بم بنانے کے بعد انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا، ’ہم جانتے تھے کہ دنیا اب پہلے جیسی نہیں ہوگی‘۔

پہلے ایٹم بم تجربے ”ٹرینٹی“ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’کچھ لوگ ہنسے، چند لوگ روئے، لیکن زیادہ تر لوگ خاموش رہے۔‘

اوپن ہائیمر عقیدت کے لحاظ سے ہندو نہیں تھے لیکن جوہری تجربے کے دوران آگ کا گولہ دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں ان کے دماغ میں ہندو مت کی سطریں گھوم گئیں۔

بھگواد گیتا 700 شلوک (سطروں) پر مشتمل ہندو صحیفہ ہے جو سنسکرت زبان میں لکھا گیا ہے، یہ ارجن نامی ایک عظیم جنگجو شہزادے اور اس کے رتھ بان کرشنا، (جنہیں وشنو کا اوتار کہا جاتا ہے) کے درمیان مکالمے پر مرکوز ہے۔

اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر مشتمل ایک مخالف فوج کا سامنا کرتے ہوئے ارجن ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن کرشنا اسے ایک اعلیٰ فلسفہ بتاتا ہے جو اسے اپنے ذاتی خدشات سے قطع نظر ایک جنگجو کے طور پر اپنے فرائض انجام دینے کے قابل بنائے گا۔

اس فلسفے کو دھرم یا مقدس فرض کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ارجن کرشنا سے کہتا ہے کہ وہ اپنی اصل شکل ظاہر کرے۔ اور گیتا کے شلوک 12 کے مطابق وہ ایک شاندار، بہت سے منہ اور آنکھوں والے ہیبت ناک وجود کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جو جولائی 1945 میں اوپن ہائیمر کے ذہن میں داخل ہوا تھا۔

نیو میکسیکو کے صحرا میں اس لمحے کو اوپن ہائیمر نے بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر ایک ہزار سورج کی روشنی آسمان پر ایک ساتھ پھوٹ پڑے، تو ہی یہ سب سے اعلیٰ کی شان ظاہر کرے گی۔‘

لیکن دیو دت پٹنائک نے ایک میڈیا پورٹل کو انٹرویو دیتے ہوئے چیلنج کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھگود گیتا کی یہ لائن نہیں سنی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اوپن ہائیمر کا ترجمہ بالکل غلط تھا۔

دیو دت پٹنائک بہت سی تنقیدی کتابوں کے مصنف ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ماہر طبیعیات اپنی تشریح میں غلط تھے۔

ان کے مطابق، اوپن ہائیمر نے لفظ ’کال اسمی‘ کی غلط تشریح کی جس کا مطلب ہے، “ وقت- دنیا کو تباہ کرنے والا “۔

دیو دت پٹنائک نے کہا ’میں نے اوپن ہائیمر پر کچھ تحقیق کی، میںیہ سطر کبھی نہیں سنی۔ کسی نے کہا کہ یہ باب 11، شلوک 32 ہے، جس میں درحقیقت ’کال اسمی‘ کہا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’میں وقت ہوں، دنیا کو تباہ کرنے والا‘۔ تو اس کا ترجمہ خود ہی غلط ہے۔ یہ ’میں موت ہوں‘ نہیں ہے۔ یہ وقت ہے، وقت دنیا کو تباہ کرنے والا ہے‘۔

india

Oppenheimer

Bhagwat Gita