خصوصی عدالتیں اوپن سماعت کرینگی، سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ٹرائل شروع نہ کیے جائیں، چیف جسٹس
خصوصی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کےخلاف کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔ حکومت چلی بھی گئی تو حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کرکے جواب لیں گے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کیلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس میں جو ہوگا وہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا جائے گا، نوٹ کر رہے ہیں کہ کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہوگا، گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت چلی بھی گئی تو حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کرکے جواب لیں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کیلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں، زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقررکرسکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے میں آپ کو ان چیمبر بتاؤں گا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کےخلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کی ویڈیوز میں کئی لوگ حساس مقامات پر حملہ کرتے نظر آئے، حملے آرمی اور ایئرفورس کی تنصیبات پر ہوئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صرف 102 افراد کو ملٹری ٹرائل کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی جیسا واقعہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا میانوالی میں ایئربیس پر بھی حملے ہوئے، ایسے حملے مستقبل میں نہیں ہونے چاہئیں، ان حملوں پر جو رد عمل تھا وہ ایسا نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔
منصور عثمان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کی اجازت مستقبل میں دوبارہ نہیں دی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے سول جرائم کی تشریح سے عدالت کو آگاہ کیا۔
اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے سوال اٹھایا کہ ”کس طریقہ کار کے تحت لوگوں کو فوجی تحویل میں لیا گیا ہے“؟
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا سوال یہ ہے کہ گرفتار افراد کو منصفانہ اور فیئر ٹرائل کا حق ملے گا یا نہیں، پہلے عدالت کو ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتا ہوں پھر سوالات کے جواب دوں گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 8 (3) میں سول جرائم کی بات واضح ہے، اگر کوئی سول جرم سویلین کرے تو ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہوسکتا، 2015 کی ترامیم میں سویلینز کے ٹرائل کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینز کے ٹرائل کی بات ہے۔
منصور عثمان بولے کوئی سویلین دفاعی کام میں رخنہ ڈالے تو وہ اس قانون کے نرغے میں آتا ہے، آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سویلین افواج کا ڈسپلن خراب کرے تو بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟ افواج کا ڈسپلن خراب کرنا قانون میں درج ہے یا قانون سے اخذ کیا گیا ہے؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ یہ آرمی ایکٹ میں درج ہے۔
جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟
اٹارنی جنرل بولے جی، آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ فوجی ہو یا سویلین، کیا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں آنے والے بنیادی انسانی حقوق سے خارج ہوں گے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین سے ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا ؟ قانون بلکل واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن بولے سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے 21 ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کیلئے شرائط رکھی گئیں، اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئے تھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں اس میں آپ اپنی ہی کہی بات کی نفی کررہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کل پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق شامل کرنا چاہے تو کرسکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے۔
بنیادی انسانی حقوق دینا یا نہ دینا پارلیمنٹ کا اختیار
جسٹس منیب اختر بولے یعنی ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق دینا یا نہ دینا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا ایک پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی حقوق شامل کرے اگلی پارلیمنٹ نکال دے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم نے انتظامیہ اورعدلیہ کے اختیارات میں فرق کرکے سب سے بڑا تحفظ دیا تھا، ٹرائل میں مجوزہ طریقہ کار دے کر انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا۔
منصور عثمان نے کہا کہ عدالت کو ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتا ہوں۔
جس پر جسٹس منیب اختر بولے ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانے کی کیا ضرورت ہے، جب ملٹری ٹرائل میں بنیادی حقوق کا اطلاق ہونا ہی نہیں ہے؟
چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو بتانا چاہتے ہیں بتائیں، عدلیہ کی آزادی انصاف کی بنیاد ہے، ملٹری ایکٹ کے تحت پراسیکیوشن ہی کیس کا فیصلہ کرے گی، اور اپیل بھی وہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل، 2015 میں جیسے آئین کو پس پشت ڈالا گیا تھا وہ اب نہیں ہو رہا۔ فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف کسی آزادانہ فورم پر اپیل کا حق بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔
جسٹس منیب اختر بولے بنیادی حقوق کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے تومعلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جارہے، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے، آپ کی دلیل ہے ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔
ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں، نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015 میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سےمتعلق تھا۔
ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پراسس
اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پراسس بتاؤں گا، پھر عدالتی سوال پر آؤں گا، جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے، رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے، آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے، اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ شواہد کی سمری کی ریکارڈنگ کےدوران ملزم کو جرح کا حق دیا جاتا ہے، جرح کے بعد آرمی ایکٹ کے رول 19 کے تحت چارج فریم کیا جاتا ہے، فیلڈ جنرل، کورٹ مارشل کورٹ تشکیل دیتا ہے، ملٹری ٹرائل کرنے کیلئے 3 افسران کا پینل بیٹھتا ہے، ملزمان کو تمام شواہد اور گواہان پر جرح کا مکمل حق دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ایک کمانڈگ افسر طے کرتا ہے کہ کیس بنتا ہے یا نہیں؟
مںصور عثمان نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل کے دوران ملزمان کو وکیل کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے، ملزم فوج کی لیگل برانچ کا افسر یا پرائیویٹ وکیل بھی کرسکتا ہے۔ ملٹری کورٹس میں ملزم کو اقبال جرم یا صحت جرم سے انکار کا آپشن دیا جاتا ہے، ملزم کے اقبال جرم پر سزا سنا دی جاتی ہے، صحت جرم سے انکار پر ملزم کا باقاعدہ آرمی ٹرائل ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو مزید بتایا کہ ملٹری کورٹ میں ایک افسر کو“عدالتی صدر“مقرر کیا جاتا ہے، عدالتی صدر کارروائی کا آزادانہ جائزہ لیتا ہے، عدالتی صدر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ آزادانہ اور شفاف ٹرائل کا جائزہ لے، ٹرائل کرنے والے تین افسران کی اکثریت کا فیصلہ حتمی تصور ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاء کو آنے کی اجازت ہوگی، گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولیات دی گئی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کے معاملے پرعدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر بہت محتاط رہ کر غور کی ضرورت ہے، ایسے چلنا ہوگا کہ عالمی سطح پر ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو، ایک ماہ کا وقت دیا جائے۔
اٹارنی جنرل کے ایک ماہ کے وقت مانگنے پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک مہینے بعد تو حکومت ہی نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر ایک ایکٹ کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو آپ یہ بات کر رہے ہیں کہ حکومت اس معاملے پر تیار ہے، کیا یہ قانون سازی سے ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی قانون سازی سے ہوگا ، میں اس بیان پر قائم ہوں کے ابھی ٹرائل نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ٹرائل میں پیش رفت ہو تو عدالت کو آگاہ کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بلکل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟
جس پر منصور عثمان نے جواب دیا کہ ملزمان کوجیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں رکھا گیا۔
Comments are closed on this story.