سی پیک کیخلاف عالمی سازشیں- بلوچستان میں ہوا کا رخ بدل رہا ہے
بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک ایک دہائی کے بعد اٹھی ہے۔ ہمیشہ سے یہ کہتے ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کی یہاں پہ جب علیحدگی پسندی کی تحریک زور پکڑتی ہے، تو دو تین سال رہتی ہے.
ہم نے 2000 میں یہی دیکھا، پھر 2013 میں یہ بالکل ختم ہو گئی اب پھر بڑھنے لگی ہے جب یہ عروج پر ہوتی ہے، تو ہم اپنے اداروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ اس کو کنٹرول کریں ان کے خلاف آپریشن کریں کاروائیاں کریں اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔
ہم نے 2013 میں دیکھا کہ سب بہتر ہوگیا تھا، اس وقت ضرورت تھی گورننس کی، بلوچستان کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی، چاہے وہ صحت تھی تعلیم تھی روڈ تھے لیکن نہیں دیے گئے۔
آج بھی بلوچستان کی حکومت ان مسائل پر بالکل توجہ نہیں دے رہی، وہ سیمنار تو کروا دیتے ہیں کہ لوگوں کی ترقی اور خوشحالی اور معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے بہت کام کیا جا رہا ہے، دودھ اور شہد کی نہریں بہادی گئی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن وہ عوام کو دے کچھ نہیں رہے۔
بلوچستان حکومت کی حالت تو یہ ہے کی ان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ جو ان کو بجٹ ملتا ہے، وہ خرچ کر سکیں۔ اس مرتبہ بھی آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق کہا گیا ہے کہ 53 ارب روپے جو بلوچستان حکومت کے پاس تھے وہ خرچ ہی نہیں کرسکی۔
ان کے پاس صلاحیت نہیں وہ مسائل کس طرح حل کریں گے، وہ آج بھی فوج اور اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کسی طرح دہشت گردی کی اس لہر کو کنٹرول کریں تاکہ وہ اپنے معاملات کو چلائیں۔ ادارے دہشت گردی کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اس مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے، جو بلوچستان کے سیاستدانوں میں نظر نہیں آرہی، چاہے وہ قوم پرست ہی کیوں نہ ہوں۔ قوم پرستوں کی حالت اور شکست بلدیاتی انتخابات میں ہم نے دیکھی ہے کہ مکران کا پورا علاقہ جو کبھی قوم پرستوں کا گڑھ ہوتا تھا وہاں حق دو تحریک جیت گئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ عوام بھی ان کو سپورٹ نہیں کر رہے۔ وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ قوم پرست ہوں یا یہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی جیسی مرکزی دھارے کی پارٹیاں یہ ان کے معاملات حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ صرف باتیں کرتے ہیں اور جب حالات بہت زیادہ خراب ہوتے ہیں تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف پیکج پھینک دیتے ہیں۔
اس سے عارضی مسئلہ تو حل ہو جاتا ہے لیکن بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس میں کچھ چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں ہے کیسے ہو رہا ہے پہلے تو طالبان کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا افغانستان میں ٹی ٹی پی کا کوئی وجود نہیں، لیکن دو سال پہلے جب افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف طالبان لڑ رہے تھے، تو ٹی ٹی پی نے ملا ہیبت اللہ کی بیت کی اور اس لڑائی میں وہ شامل ہو گئے بعد میں وہ ایک ساتھ مل کر لڑتے رہے۔
اب جو بلوچستان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ آپ کو سمجھ آتی ہے کہ اس وقت بلوچستان میں امریکا کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سی پیک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس پر حکومت کام کر رہی ہے گزشتہ دور میں ان پروجیکٹس پر کام رکا ہوا تھا، اس لیے ٹی ٹی پی کے حملے یہاں پر نہیں تھے۔ اب اس پر چونکہ تیزی سے کام چل رہا ہے، تو کسی طرح اس کو ٹارگٹ کرنا مقصود ہے۔
یہاں دیکھیں تو ٹی ٹی پی ہو یا آئی ایس، ان کا زیادہ فوکس بلوچستان کے شمالی علاقے تھے، جنوب کی طرف زیادہ دھیان نہیں تھا بالخصوص کوئٹہ، پشین، چمن اور ژوب کے علاقوں کی طرف تھا۔
لیکن اب ان کا وجود مکران تک پھیلتا جا رہا ہے وہاں ان کے لوگ سامنے آتے جارہے ہیں اور وہاں ان کا اتحاد ہے، وہ براس اور بلوچستان نیشنلسٹ آرمی کے ساتھ ہو گیا ہے، جو خود کش حملے پہلے ٹی ٹی پی یا داعش کیا کرتے تھے اب وہ بی ایل اے نے بھی شروع کر دیا ہے، تو اگر آپ غور کریں ایک ہی مقصد سمجھ آتا ہے کہ پاکستان کے مفادات کو نقصان ہو اور امریکی مفاد کا کسی طرح دفاع کیا جا سکے۔
اگر دیکھا جائے، تو امریکی اور بھارتی مفادات کے تحفظ کے لیے ٹی ٹی پی استعمال ہو رہی ہے۔ اگر یہ سی پیک مکمل ہو جاتا ہے اور جس طرح ہمارے ایران اور روس سے تعلقات بہتر ہوتے جا رہے ہیں، تو آگے چل کے امریکن انٹرسٹ کو نقصان پہنچے گا اس لیے بلوچستان کو فوکس کیا جا رہا ہے تاکہ اس کو غیرمستحکم کر دیا جائے، یہاں جو سرمایہ کاری آ رہی ہے اس کو کسی طرح روکا جائے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک پرانی ہے اس میں کبھی خودکش حملے فدائی حملوں کا نام و نشان نہیں رہا لیکن جب سے بی ایل اے، بی آر اے اور بی ایل ایف کی قیادت افغانستان میں بیٹھی، تو وہ افغانستان میں طالبان کے زیر اثر علاقوں میں رہی، قندھار، ہرات، ہلمند زابل اور چند ان علاقوں میں ان کا اثر رسوخ تھا اس کے بعد انہوں نے یہ تربیت دینا شروع کی کہ خودکش حملے کیے جائیں گے۔
بلوچ تاریخ میں نہیں ملتا ہمیں کہ کبھی خودکش حملے کئے گئے لیکن یہ سلسلہ شروع کیا اسلم اچھو نے اپنے بیٹے کے ذریعے اور پھر یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اب کہا یہ جاتا ہے کہ ان حملوں میں مذہبی ٹچ نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے بلوچ مزاحمت کار مذہب سے زیادہ قوم پرستی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ان کے جو فدائی حملے کرنے والی خواتین و مرد ہیں ان کے انٹرویوز دیکھیں تو پتہ لگے گا کہ وہ آزادی کے نام پر اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ جو کام طالبان خودکش بمباروں سے مذہب کے نام پر کراتے ہیں وہ ہی کام ان سے قوم پرستی کے لیے کرایا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ آزادی ملے گی حالانکہ ان کو خود بھی یہ علم ہے اچھی طرح کہ پاکستان سےعلیحدگی نا ممکن ہے۔ یہ ایک بڑی فوجی قوت ہے۔ اس کےعوام ہے اور جو لوگ علیحدگی کی جدوجہد میں شریک ہیں وہ دو فیصد بھی نہیں ہوں گے، اس کا مقصد بلوچستان کو عدم استحکام سے دو چار کر کے عالمی طاقتوں کے مفادات کو تقویت پہنچانا ہے۔
لوگوں کے خدشات تھے کہ کافی حد تک ایران سے بھی مداخلت ہو رہی ہے اور یہ گزشتہ تین چار سال میں ہم نے محسوس بھی کیا ہے کہ یہاں جو علیحدگی پسند تھے وہ یہاں پر حملے کر کے ایران کی طرف چلے جاتے تھے وہاں ان کو پناہ گاہیں بھی میسر آتی تھیں۔
گزشتہ ایک سال چھ ماہ کے دوران یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان اور ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ ہے اس کے ایران کے ساتھ روابط اچھے ہوئے ہیں اور وہاں سے اب سپورٹ ملنا شروع ہوئی ہے اور جو سیف ہیونز تھے خاص طور پہ جو ایران بارڈر کے ساتھ ساتھ وہ اب تقریباً ختم ہونے لگے ہیں۔ اس کی مثال گلزار امام شنبعے کی گرفتاری ہے جو بہت اہم ہے اور اس کے بعد اسکا قومی دھارے میں آنا اور یہ بتانا کہ کس طرح نوجوانوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
علیحدگی پسندی کی تحریک کیخلاف اگر اس وقت ایران پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے، تو وہ بھی اس وجہ سے دے رہا ہے کہ اس کے مفادات بھی یہ ہی ہیں کہ کسی طرح وہ اس بلاک کا حصہ بنے جس میں پاکستان چین اور روس ہیں تاکہ وہ بھی آگے مستحکم رہ سکیں۔
ایران کے نظریہ کی بنیاد ہی اسرائیل اور امریکا کے خلاف کھڑے ہونے پر ہے، وہ اب دیکھ رہے ہیں کے ایک نیا بلاک وجود میں آرہا ہے اس میں وہ بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا راستہ روکنے میں تعاون کریں۔
پاکستان کی حکومت اور فوج کے ساتھ ایران کے تعلقات مثالی ہوتے جا رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ تہران اسی سلسلے کی کڑی ہے اور آنے والے وقت میں پاکستان ایران کے تعاون سے بجلی اور گیس کے بحران پہ بھی قابو پا لے گا۔
Comments are closed on this story.