سعودی عرب سے تعلقات قائم کرنے کیلئے دعائیں مانگ رہے ہیں، اسرائیلی صدر
اسرائیلی صدر آئزیک ہرزوگ نے اپنے ملک اور سعودی عرب کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے امریکی دباؤ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ تعلقات بحالی کا معاہدہ تبدیلی کا باعث بنے گا۔
بدھ کو امریکی کانگریس سے ایک خطاب میں کہا کہ ’اسرائیل، امریکا کا شکر گزار ہے کہ وہ اسرائیل اور مملکت سعودی عرب کے درمیان پرامن تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، جو خطے اور مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ ہم اس لمحے کی جلد آمد کے لیے دعا کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں تاریخ کے دھارے میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔‘
ہرزوگ کے تبصرے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو ایک ایسے جیو پولیٹیکل ایوارڈ کے طور پر دیکھتا ہے، جو صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کو سونپنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پچھلے مہینے، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سعودی اسرائیل تعلقات بحالی کو واشنگٹن کے لیے ’حقیقی قومی سلامتی مفاد‘ قرار دیا تھا۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار نے جون میں سعودی مملکت کا دورہ بھی کیا تھا، لیکن اس کے بعد انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ تعلقات قائم کرنا ”مشکل“ ہے۔
1948 میں فلسطین پر قبضے کے بعد سے اب تک چند عرب ریاستوں نے ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہے، اسرائیل خطے میں امریکا کا ایک اہم اتحادی ہے، لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2020 میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان باضابطہ تعلقات کے لیے معاہدے کرنے میں مدد کی۔
سوڈان نے بھی ان معاہدوں میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جنہیں ”ابراہم ایکارڈز“ کہا جاتا ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ریاض عرب میں امن کے اقدام کے مطالبے پر قائم ہے ، جو اسرائیل کے ساتھ اس شرط پر تعلقات بحالی کی پیش گوئی کرتا ہے کہ وہ عرب علاقوں سے دستبردار ہو جائے اور ایک فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
اس اقدام میں فلسطینی پناہ گزینوں کی حالت زار کے ”منصفانہ حل“ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
بدھ کو ہرزوگ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ایک دن امن قائم کرنے کے لیے ترس رہا ہے، لیکن انہوں نے اس تنازعے کا الزام پوری طرح سے فلسطینیوں پر ڈال دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل یا اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینی دہشت گردی مستقبل میں امن کے کسی بھی امکان کو کمزور کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف اس سال اسرائیل نے کم از کم 177 فلسطینیوں کو قتل کیا۔
2022 میں اسرائیل نے 200 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا، ان میں دو امریکی شہری الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو اکلیح اور بزرگ فلسطینی نژاد امریکی عمر اسد بھی تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم جرم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے۔
لیکن اسرائیل کو سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے والے امریکا میں اسرائیل کی حمایت مضبوط اور دو طرفہ رہی ہے۔
ہرزوگ کے خطاب کے دوران متعدد قانون سازوں کھڑے ہو کر نعرے لگائے۔
منگل کو ایوانِ نمائندگان نے بھاری اکثریت سے ایک علامتی قرارداد کی منظوری دی جس میں اعلان کیا گیا کہ اسرائیل ”نسل یا قوم پرست ریاست نہیں ہے“۔
اس کے باوجود کانگریس میں ترقی پسندوں کا ایک چھوٹا لیکن آواز اٹھانے والا گروپ اسرائیلی تشدد کے خلاف بول رہا ہے۔
راشدہ طالب، کوری بش، الہان عمر، الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، نائڈیا ویلازکوز اور برنی سینڈرز سمیت کئی ڈیموکریٹس نے ہرزوگ کے کانگریسی خطاب کا بائیکاٹ کیا۔
طالب اور بش نے بدھ کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کا اعادہ کیا۔
Comments are closed on this story.