قوی الجثہ ڈائنوسارز دوسرے جانوروں سے پٹ جاتے تھے، نئی تحقیق میں انکشاف
ڈائنوسارایسی مخلوق تھے جن سے ڈرنا ضروری تھا۔ لیکن ایک نئے شناخت شدہ فوسل سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کا حصہ بننے والے یہ قوی الجثہ ڈائنوسارز دوسرے جانوروں سے پٹ بھی جاتے تھے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع رپورٹ کے مطابق ماہرین نے 125 ملین سال پرانا فوسل دریافت کیا جو اپنے سائز کے ایک تہائی چھوٹے ممالیہ جانور کے ذریعے لے جانے کے بعد وقت کے ساتھ منجمد ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، ممالیہ جانور کے دانت ڈائنوسار کی پسلیوں میں کُھبے ہیں جبکہ اس کے بائیں پنجے نے ڈائنوسارز کے نچلے جبڑے کو دبوچ رکھا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت نے ابتدائی ممالیہ جانوروں کو ڈائنوسارز کے لیے بطور ’چارہ‘ دیکھنے کے دیرینہ نظریے کو چیلنج کیا ہے۔
کینیڈین میوزیم آف نیچر میں قائم اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر جورڈن میلن کا کہنا ہے کہ ’یہ نیا فوسل ہمیں سکھاتا ہے کہ میسوزوئک ’ڈائنوسارز کے دور‘ میں ڈائنوسار ہمیشہ بادشاہ نہیں ہوتے تھے۔ چھوٹے ممالیہ جانور بھی ان کے لیئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، جو 66 ملین سال پہلے ان کے غلبے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
مئی 2012 میں چین میں لوئر کریٹیشیئس یشیئن فارمیشن کے لوجیاٹن رکن میں دریافت ہونے والے اس ممالیہ جانور کی شناخت ٹیم نے ’ریپینومامس روبسٹس‘ کے نام سے کی تھی جو ایک قدیم مخلوق ہے جس کا سائز گھریلو بلی کے برابر ہے۔
ماہرین کے مطابق اس حملے کا شکار سیٹاکوسورس لیجیاٹونینسس تھا، جو ایک دو طرفہ،پودے کھانے والا ڈائنوسار تھا۔
سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جاندار اپنی موت کے وقت مکمل طور پر بالغ نہیں تھا، ایسا لگتا ہے کہ یہ جانور قدرتی آفت میں مارے گئے تھے کیونکہ ممالیہ جانور نے ڈائنوسار سے نمٹنے کی کوشش کی تھی۔
“ڈائیناسور کے ڈھانچے پر کاٹنے کے نشانات، اس کے اوپر ممالیہ جانور کی پوزیشن، اور ممالیہ جانور کے پکڑنے اور کاٹنے کے عمل، اجتماعی طور پر اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ممالیہ کمزور ڈائناسور کا شکار کر رہا تھا جب دونوں اچانک آتش فشاں کی زد میں آ گئے۔
محققین کے مطابق پتہ چلتا ہے کہ ممالیہ جانوروں کے لیے اس طرح کے ڈائنوسار کا شکار کرنے کی کوشش کرنا ممکن تھا، وولورائن سمیت ممالیہ جانور کبھی کبھار اپنے طور پر کیریبو سمیت بہت بڑی مخلوق کا شکار کرتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ فوسل شکاریوں نے ممالیہ جانوروں کو ڈائنوساروں پر حملہ کرتے پایا ہے۔2005 میں محققین نے چین کے اسی حصے سے اپنومامس روبسٹس کا ایک فوسل دریافت کیا تھا جس کے پیٹ میں ایک نوجوان سیٹاکوسورس کی باقیات موجود تھیں۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہر حیاتیات پروفیسر اسٹیو بروسیٹ، جو اس نئی دریافت میں شامل نہیں تھے، کا کہنا ہے کہ وہ اس فوسل سے حیران ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہڈیوں کے ایک حصے کو 12 کروڑ 50 لاکھ سال تک محفوظ رکھنا کافی مشکل کام ہے اور ڈائنوسار کے ایک ڈھانچے کو محفوظ رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے لیکن لڑائی میں ملنے والے جانوروں کو پکڑنا معجزانہ لگتا ہے۔
Comments are closed on this story.