Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

اگلی قسط کیلئے پاکستان کتنے ٹیکس لگائے گا، آئی ایم ایف نے تفصیلات جاری کر دیں

پاکستان میں کشیدہ سیاسی ماحول قرض پروگرام کو 'کمزور' کر سکتا ہے، عالمی مالیاتی ادارہ
اپ ڈیٹ 19 جولائ 2023 08:30am

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان کا کشیدہ سیاسی ماحول اور پالیسی میں اتار چڑھاؤ پروگرام پر عمل درآمد کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے ملک کا میکرو مالیاتی اور بیرونی استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین 9 ماہ کے لیے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے تقریبا ایک ہفتے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں یہ تفصیلات بھی موجود ہے کہ قرض کی مزید قسطوں کیلئے پاکستان زرعی اور ریئل اسٹیٹ سمیت مختلف شعبوں میں کتنے ٹیکس لگائے گا۔

پاکستان کو معاہدے کے تحت تین قسطیں ملنی ہیں جن میں سے ایک وصول ہوچکی ہے جب کہ دوسری نگراں حکومت نے دور میں آئندہ چند ماہ میں ملے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کشیدہ سیاسی ماحول قرض پروگرام کو ’کمزور‘ کر سکتا ہے، ملک کو بیرونی فنانسنگ کے خطرات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں، پاکستان کو مہنگائی کم کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی مزید سخت کرنا ہوگی۔

ماضی میں پاکستان نے معاہدے سے انحراف کیا

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو گزشتہ ایک سال کے دوران بڑے جھٹکے لگے، پاکستان کو سیلاب کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑا، یوکرین میں جنگی صورتحال سے اجناس کی کمی، اور آئی ایم کی جانب سے بیرونی اور داخلی فنانسنگ کی شرائط کو سخت کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسی کی ناکامی نے پاکستانی معاشی حالات کو مزید خراب کیا۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکام نے وبائی امراض سے مضبوط بحالی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے درمیان توسیعی مالی سال 2022 کے بجٹ کی منظوری کے ساتھ پروگرام (ای ایف ایف) کے معاہدے سے انحراف کیا، جس کے بعد آئی ایم ایف بحالی کے پروگرام کو روک دیا گیا، جس وجہ سے پاکستان میں شرح نمو رک گئی، افراط زر میں اضافہ ہوا، بین الاقوامی ذخائر انتہائی کم سطح پر آ گئے، اور مالی اور بیرونی دباؤ شدت اختیار کرگیا۔

پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں تاخیر کا شکار ہوا

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے دوران پاکستان جون کے آخر تک مالی ہدف سے محروم رہا، اور پھر حکام نے جنوری 2022 میں منی بجٹ کی منظوری کے ساتھ اپنی پالیسی درست کی، تاہم بیرونی عدم توازن غلط مالی توسیع اور بڑھتی ہوئی افراط زر کے دباؤ کی وجہ سے مانیٹری پالیسی میں تاخیر کی وجہ سے بڑھنا شروع ہوا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 23 کی دوسری ششماہی میں کچھ کوششوں کے باوجود مشکل معاشی، سماجی اور سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ ناکافی بیرونی فنانسنگ کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی، اور معاہدہ 30 جون کو ختم ہوگیا۔

تاہم چیلنجز سے نمٹنے اور میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے، حکام نے اپنی پالیسی کوششوں کی تجدید کی ہے، اور ایک نئے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت آئی ایم ایف کا تعاون حاصل کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی جاری تفصیلات

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مہنگائی کم کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی میں سختی لانا ہوگی، پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور پاور سیکٹر کے بقایاجات کو کلئیر کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مالی سال 2022 میں مہنگائی کی شرح 12.1 فیصد تھی، مالی سال 2023 میں ملک میں مہنگائی کی مجموعی طور پر شرح 29.6 فیصد رہی، اور پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے، معیشت پست شرح نمو کا شکار رہے گی، معاشی ترقی کی شرح محض 2.5 فیصد ہوسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہوسکتی ہے، مالی سال 2023 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد رہی جبکہ مالی سال 2022 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے، معیشت میں قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا اور حکومت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8.9 ارب ڈالر رہیں گے۔

پاکستان کو آئندہ 3 سال کتنی بیرونی مالی فنانسنگ کی ضرورت ہے

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کو آئندہ 3 سال میں مجموعی طور پر 87 ارب 42 کروڑ ڈالر کی بیرونی مالی ضروریات کا سامنا ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال میں 28 ارب 36 کروڑ ڈالر کی بیرونی مالی ضرورت کا سامنا ہوگا، مالی سال 2024-25 میں 27 ارب 16 کروڑ ڈالر اور 26-2025 میں 31 ارب 89 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی ضرورت ہوگی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کا ٹیکس ریونیو 11 ہزار 21 ارب تک جانے کا تخمینہ ہے، جو اگلے مالی سال 13 ہزار 93 ارب روپے اور مالی سال 26-2025 میں ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 14 ہزار 738 ارب تک جانے کا امکان ہے۔

پاکستان کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی

آئی ایم ایف کا کہناہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے، جب کہ تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ رواں مالی سال پرائمری سرپلس 401 ارب روپے رکھا جائے گا، کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے گی، ڈالر کے اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا، جب کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بہبود کے شعبے کا فنڈز بڑھائیں گی، سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری کے قانون کو فعال کیا جائے گا، اور سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ اور نیشنل اکاؤنٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔

رواں مالی سال مالی سال پیٹرولیم لیوی کی مد میں 859 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، جو اگلے سال 1 ہزار ارب اور سال 26-2025 تک یہ ہدف 1134 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ رواں سال نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 2116 ارب روپے وصولی کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹیکس آمدن بڑھانے کےلیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کرے گی، اور نہ ہی ٹیکس چھوٹ یا ٹیکس مراعات جاری کرے گی۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو مانیٹری پالیسی پر خود مختار کام کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے، معاہدے کے مطابق حکومت اسٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی، اسٹیٹ بینک کے بیرونی آڈیٹرز کو آئی ایم ایف سے مشاورت کا اختیار دیا جائے گا، کرنسی کی شرح تبادلہ کنٹرول کرنے کے لیے رسمی اور غیررسمی طریقے استعمال نہیں کیے جائیں گے، پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ادائیگیاں نہیں روکے گا۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ درامدآت پر پابندیاں پروگرام کے خاتمے تک ہٹا دی جائیں گی، 2024 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، رواں سال پاکستان کا دفاعی بجٹ 1804 ارب ہے جو آئندہ مالی سال 2093 ارب ہو جائے گا۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے شفافیت کی پالیسی پر کاربند رہنے کی یقین دہانی کروائی ہے، آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے لیے جو اضافی اقدامات لے گا پاکستان وہ اٹھانے کا پابند ہوگا، جب کہ پاکستان کی جانب سے نئے اقدامات اٹھانے اور پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے آئی ایم ایف سے مشاورت کی جائے گی، آئی ایم ایف پاکستان کے پروگرام پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کرتا رہے گا۔