Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

گرمی کی شدید لہر نے یورپ کی راتیں تک ’جہنم‘ بنادیں، 3 ہلاک

پہلی بار گرم ترین اوقات میں تعمیر اور ڈلیوری کے شعبے میں کام کرنے والوں پر پابندی عائد
اپ ڈیٹ 15 جولائ 2023 11:33pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

کاربن آلودگی کے باعث شدید گرمی کی لہر جنوبی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس سے عمر رسیدہ افراد اور صحت کے بنیادی مسائل سے دوچار افراد کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

یونان میں درجہ حرارت 42 ڈگری سے تجاوز کر گیا گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث 3 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند روز تک یونان بھر میں درجہ حرارت 42 ڈگری سے بلند رہے گا لہذا شہریوں کو ہیٹ ویو ریڈ الرٹ کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں کو خصوصی ہدایات کے طور پر ہلکے رنگ کے باریک کپڑے اور سر پر ٹوپی پہننے، پانی کے زیادہ استعمال اور شاور لینے کیلئے کہا گیا ہے۔

سخت گرمی کے باعث دل کے مریض، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا افراد کو گرمی کی وجہ سے سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ دو روز میں گرمی کے باعث 3 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزارتِ محنت نے ڈیلوری کا کام کرنے والے افراد کیلئے دوپہر 12 سے لیکر شام 5 بجے تک باہر کام کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔

خیال رہے کہ سرد ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں کو بھی سخت گرمی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔ ایتھنز ٹور بس اور سیاحتی مقامات بھی خالی دکھائی دینے لگے۔

ہفتے کے روز ایتھنز میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ، پیر کو سیول میں 41 ڈگری سینٹی گریڈ اور منگل کو روم میں 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

افریقہ سے یورپ میں گرم ہوا سربرس نامی ہائی پریشر کا علاقہ لے کر آیا ہے۔ گرم ہوا جو کہ ٹھنڈی ہوا کے مقابلے میں زیادہ نمی رکھتی ہے، کچھ علاقوں میں گرم اور خشک حالات کا باعث بن سکتی ہے اور دوسروں میں بھاری بارش اور فلیش سیلاب کا سبب بن سکتی ہے.

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے الوارو سلوا کا کہنا ہے کہ 2050 تک تقریبا نصف یورپی آبادی کو موسم گرما میں بہتر زیادہ گرمی کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے سورج 1.2 سینٹی گریڈ گرم ہو چکا ہے جس کی وجہ فوسل ایندھن سے نکلنے والی گیسیں اور فطرت کی تباہی ہے۔ یورپ میں درجہ حرارت تقریبا دوگنا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

تین سال کے وقفے کے بعد واپس آنے والے قدرتی طور پر پیدا ہونے والے موسمی پیٹرن ’ایل نینو‘ کی وجہ سے رواں سال درجہ حرارت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ جولائی کے پہلے چند دن سائنس دانوں کے ریکارڈ کردہ گرم ترین دن تھے۔

آب و ہوا کے بحران کے کردار کا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ مئی میں ورلڈ ویدر اٹریبیوشن کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی خرابی نے گزشتہ ماہ اسپین، پرتگال، مراکش اور الجیریا میں گرم درجہ حرارت کو کم از کم 100 گنا زیادہ بنا دیا تھا۔

پورے براعظم میں ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور حکام نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ گرمی میں زیادہ احتیاط برتیں۔ اسپین میں ریڈ کراس نے جنگل کے قریب بسنے والے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں کے اندر رہیں اور کھڑکیاں بند کردیں۔ یونان میں رضاکاروں نے سیاحتی مقامات پر پانی کی بوتلیں تقسیم کیں اور حکام نے سیاحوں کی ’حفاظت‘ کے لیے ایکروپولس کو عارضی طور پر بند کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا۔

یونانی حکام نے دن کے گرم ترین حصے کے دوران ایکروپولس کو بند کر دیا. (روئٹرز)

ملک کے اہم سیاحتی مقام کو دوپہر سے پانچ گھنٹے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب حکومت نے انتہائی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ پہلی بار دن کے گرم ترین اوقات میں تعمیراور ڈلیوری کے شعبے میں کام کرنے والے افراد پر پابندی عائد کی گئی۔

یونان میں جہاں اربن ییٹ آئی لینڈز نےرات کے وقت بھی درجہ حرارت بلند کر رکھا ہے، سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کو دور سے کام کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ایجیئن جزیرے ناکسوس میں جنگل کی آگ بھڑک اٹھنے کے باعث ہوا سے راحت ملنے کی امید بھی نہیں تھی۔

اسپین کے ورجن ڈیل روکیو یونیورسٹی اسپتال کے ڈاکٹر اور صحت عامہ کے ماہر جوس ویلنسیا مارٹن کا کہنا ہے کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد م،یں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انہون نے کہا کہ، ’تیزی سے بار بار، طویل اور شدید ہیٹ ویو کے اثرات کی روک تھام اور کنٹرول ایک چیلنج ہے‘۔

ریڈ کراس کے رضا کار پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تقسیم کر رہے ہیں۔ (تصویر۔ روئٹرز)

ہیٹ ویو کو اکثر ”خاموش قاتل“ کہا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر اموات سرکاری اعداد و شمار میں شمار نہیں کی جاتی ہیں۔ اموات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیٹ اسٹروک اور ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بہت سے زیادہ گرم موسم سے آتے ہیں جو جسم کو معمول کے مطابق کام کرنے سے روکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف برن میں آب و ہوا اور صحت سے متعلق تحقیقی گروپ کی سربراہ اینا ویسڈو کیبریرا کا کہنا ہے کہ ’ہم سب گرمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گرمی ہمیں صرف اسی صورت میں مار دے گی جب ہم کھیت میں 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر کام کررہے ہوں گے۔ اگر آپ ایک کمزور شخص ہیں جو گرمی کا سامنا کر رہے ہیں، تو آپ کے اسپتال جانے یا مرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے.

ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ سال یورپ میں موسم گرما کی گرمی کی وجہ سے 61 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ اٹلی، اسپین، یونان اور پرتگال جیسے جنوبی یورپی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد خواتین اور عمر رسیدہ افراد کی تھی۔

ریکارڈ توڑ گرمی کے دنوں میں ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ راتیں اتنی گرم ہو سکتی ہیں کہ ان سے متاثر ہونے والا صحت یاب نہیں ہو سکتا۔

میڈرڈ میں کلائمیٹ ریسرچ فاؤنڈیشن کے صحت عامہ کے ماہر ڈومینک روئے کا کہنا ہے کہ گرم راتیں جسم کو طویل عرصے تک تھرمل تناؤ میں ڈالدیتی ہیں اور نیند کم کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی یورپ کے زیادہ ترحصوں میں ٹراپیکل نائٹس کی تعداد دگنی یا تین گنا بڑھ گئی ہے، جس نے کم از کم 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ”جہنمی“ راتوں کے لیے نئی حد مقرر کی ہے.

جن شہروں نے گرمی سے نمٹنا سیکھا ہے وہ درجہ حرارت بڑھنے پر اموات کی تعداد کو کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کچھ نے مزید سبز جگہوں کو شامل کرکے شہروں کے درجہ حرارت کو کم کیا ہے۔ دوسروں نے شہریوں اور ہنگامی خدمات کو تیار کرنے کے لئے گرمی کے ایکشن پلان اور قبل از وقت وارننگ سسٹم تیار کیے ہیں۔

ویلنسیا نے کہا کہ محفوظ رہنے کے لیے لوگوں کو پانی پینا چاہیے، سورج کی براہ راست زد میں آنے سے بچنا چاہیے، ہلکے کپڑے پہننے چاہئیں اور سن اسکرین لگانا چاہیے۔

Heat Wave

Europe

record temperatures

Europe heat wave