Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

رواں سال یورپ پہنچنے کی کوشش میں 300 بچے ڈوب گئے

حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، رپورٹ
اپ ڈیٹ 15 جولائ 2023 11:29am
تصویر: انادولو/ٹوئٹرہینڈل
تصویر: انادولو/ٹوئٹرہینڈل

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں کم از کم 289 بچے یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

یونیسیف نے جمعے کے روز کہا کہ یہ تعداد 2022 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں تقریبا دوگنی ہے، ان بچوں نے تنازعات اور آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بحیرہ روم میں خطرناک سفر کیا۔

پناہ گزینوں اور نقل مکانی سے متعلق یونیسیف کی عالمی سربراہ ویرینا نواس کا کہنا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ وسطی بحیرہ روم میں بہت سے بحری جہاز وں کے حادثے میں کوئی زندہ نہیں بچا یا ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق 2023 کے پہلے 6 مہینوں میں 11,600 بچے اس سفر پر نکلے جو 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریبا دوگنا ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں نیوز بریفنگ کے دوران کنوس نے کہا کہ رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں مرکزی راستے سے یورپ پہنچنے والے 3300 بچوں میں سے 71 فیصد بچوں کو ساتھ یا علیحدہ ریکارڈ کیا گیا۔

یہ تعداد پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اکیلے سفر کرنے والی لڑکیوں کو خاص طور پر اپنے سفر سے پہلے، دوران اور بعد میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ لیبیا یا تیونس سے یورپ تک کشتیوں کے سفر پر عام طور پر سات ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

ادارے نے ’قابل روک تھام اموات‘ کی مذمت کرتے ہوئے یورپ میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے محفوظ، قانونی اور قابل رسائی راستوں کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سی حکومتیں معاملے کو نظر انداز کر رہی ہیں یا خاموش ہیں جب کہ صرف چھ ماہ میں یورپ اور افریقہ کے درمیان پانیوں میں تقریبا 300 بچے ہلاک ہو چکے ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق راستے میں، انہیں حراست، محرومی، تشدد، اسمگلنگ، تشدد، استحصال اور عصمت دری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے.

نیوز بریفنگ میں مزید کہا گیا کہ ، ’ان بچوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو فوری طور پر بچوں کی زندگیوں کی ناقابل تردید قیمت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کام کرنا چاہئیے ، اور افسوس سے آگے بڑھ کر مؤثر حل کی طرف بڑھنا چاہئیے‘۔

UNICEF

Europe

children drowned