سیما کو بھارت میں حمایت کرنے والے مل گئے، ارتداد پر دھمکیاں ملنے کا دعویٰ
پب جی پردوستی اور محبت کے بعد چار بچوں کے ہمراہ بھارت جانے والی سیما نے دعویٰ کیا ہے کہ مذہب تبدیل کرنے کے بعد اسے آن لائن دھمکیاں مل رہی ہیں۔
22 سالہ سچن مینا ایک غیر شادی شدہ ہندوستانی شاپ کیپنگ اسسٹنٹ اور ہندو ہیں، جن کی سیما سے دوستی اور پھرمحبت کی کہانی 2020 میں عالمی وبا کے دوران آن لائن شوٹنگ گیم کھیلتے ہوئے شروع ہوئی۔
سیما نے سچن کے دو کمروں پر مشتمل خاندانی گھر کے تنگ صحن میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہم دوست بنے اور ہماری دوستی محبت میں بدل گئی اور ہماری بات چیت ہر صبح اور رات طویل ہوتی چلی گئی- آخر کار ہم ملنے کا فیصلہ کیا’۔
چاربچوں کے ساتھ پاکستان چھوڑ کر نیپال کے راستے بھارت جانے والی سیما مشروط ضمانت پررہا ہیں کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کرکہیں نہیں جاسکتیں۔ ہندو مذہب اختیار کرلینے والی سیما کا کہنا ہے کہ ، ’میں واپس جانے یا سچن کو چھوڑنے کے بجائے مرجانا پسند کروں گی‘۔
پاکستان اور بھارت 1947 میں برصغیر سے الگ ہونے کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔دونوں نے 2019 میں ایک دوسرے کے ہائی کمشنر کو ملک بدرکرتے ہوئے دو طرفہ سفارتی، ثقافتی، کاروباری اور کھیلوں کے روابط بہت محدود کررکھے ہیں۔
سیما کو آن لائن دھمکیاں، ”ساتھ رہیں گے یا مرجائیں گے“
بھارتی پولیس کا کہناہے کہ بھارت میں سیما کا طویل مدتی قیام ناممکن ہوگا۔دوسری جانب سیما نے بھارتی حکومت سے خود کو شہریت دینے کی درخواست کی ہے۔
مذہب چھوڑنے والی سیما کے مطابق انہیں پہلے ہی آن لائن دھمکیاں مل چکی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ دونوں ایک ساتھ رہیں گے یا مرجائیں گے۔
سیما کی جانب سے سچن کے لیے ’لازوال محبت‘ کا اعلان اور صرف ’مردہ عورت کی حیثیت سے‘ پاکستان واپس آنے کا وعدہ ایک بھارتی ٹی وی مباحثے میں بھی شامل کیا گیا اور شریک افراد نے اس امر پرخوشی کا اظہار کیا۔
سیما نے کہا کہ وہ سب سے پہلے سچن کی گیمنگ کی مہارت سے متاثر ہوئی تھیں۔تین سال بعد یہ جوڑا مارچ میں نیپال میں ذاتی طور پر ملا اوروہ پہلی ہی ملاقات کے بعد اپنے بدسلوکی کرنے والے پاکستانی شوہر کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوگئیں۔
بھارتی پولیس کو سیما اور سچن کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب انہوں نے مقامی عدالت میں شادی کرنے کی کوشش کی۔
ہم نے محبت کی شادی کی تھی
سیما کے شوہر غلام حیدر نے سعودی عرب میں اپنی فیملی کے لیے زیادہ پیسے کمانے کے لیے مزدور اور رکشہ ڈرائیور کی نوکری چھوڑ دی تھی۔ پب جی کے بارے میں کوئی علم نہ رکھنے والا غلام حیدر اپنے خاندان کی واپسی چاہتا ہے۔
سعودی عرب سے فون پر بات کرنے والے غلام حیدر نے اے ایف پی کو بتایا، ”میں ہندوستانی اور پاکستانی حکام سے پرخلوص اپیل کرتا ہوں کہ وہ میری بیوی اور بچوں کو میرے پاس واپس لائیں“۔
حیدر نے بتایا کہ مختلف بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے اس جوڑے کی اپنی ایک محبت کی کہانی ہے۔
غلام حیدر اور سیما گھروالوں کی جانب سے شادی کرنے سے منع کیے جانے کے بعد گھر سے فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں معاملہ حل کرنے کے لئے ایک جرگہ (عمائدین کی کونسل) طلب کیا گیا اور مجھ پر دس لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ، ’میں اپنے گھر سے، اپنے خاندان سے بہت دور ہوں، اور یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ ہم نے محبت کی شاید کی تھی‘۔
وہ بالغ ہے، ہمیں اس کے بارے میں بھول جانا چاہیے
سچن بہت خوش ہے، کیونکہ اس کی فیملی نے بھی سیما کو قبول کر لیا ہے۔ دونوں سے ملاقات کیلئے آنے والے لوگوں میں سے بیشتر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہحکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ سیما کو بھارت چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
لیکن پاکستان میں سیما کے پرانے گھر، مشرقی کراچی کے گاؤں دھنی بخش کے قریب اس خبر کا خیر مقدم نہیں کیا گیا ہے۔
اگرچہ لوگ سیما کی کہانی کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ اس واقعے کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو تیار ہیں حالانکہ وہ گلیوں کے کونوں میں چھوٹے چھوٹے گروپوں میں گپ شپ کرتے ہیں۔
غلام حیدر کے کزن ظفر اللہ بگٹی نے پب جی پر سیما کو ’نفسیاتی مریض‘ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہمیں اس کے بارے میں بھول جانا چاہیے، کیونکہ وہ چلی گئی ہے اور وہ بالغ ہے۔‘
سیماسچن کو ’اپنی زندگی کا پیار‘ قرار دیتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں کہ وہ خود کو اپنے خاندان کے لیے وقف کر دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے بچوں کو بھارت میں تمام پیار، دیکھ بھال اور توجہ ملے گی۔
Comments are closed on this story.