Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سیما کا تبدیلی مذہب کہیں بھارتی شہریت کے لیے تو نہیں؟

لواسٹوری کے علاوہ یہ معاملہ ملکی سلامتی اور بھارت میں غیر قانونی داخلے کا بھی ہے
اپ ڈیٹ 13 جولائ 2023 11:35am
تصویر: بی بی سی
تصویر: بی بی سی

پاکستان سے بھارت جانے والی خاتون سیما کو بھارتی میڈیا پر بھرپور کوریج دی جارہی ہے اورتمام چینلز ان کے انٹرویو چلارہے ہیں۔

مذہب تبدیل کرتے ہوئے سچن مینا سے شادی کرنے کا یہ معاملہ اب ایک الگ رخ اختیار کرتا جارہا ہے، بھارتی میڈیا پر اس لواسٹوری کو انسانی معاملے کے طور پر پیش کیے جانے کے علاوہ کئی حلقوں سے شبہ بھی ظاہرکیا گیا کہ سیما ایک پاکستانی ایجنٹ ہیں ۔ تاہم بھارت میں غیرقانونی داخلے کے باوجود باآسانی ضمانت ملنے کے بعد سیما کا سچن کے ساتھ رہنا اور میڈیا کو تواترسے انٹرویوز دینا بھی بہت سے سوالات کھڑے کررہا ہے۔

ایک لواسٹوری کے علاوہ یہ معاملہ ملکی سلامتی اور بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا بھی ہے جس کے حوالے سے خاصے سخت قوانین پائے جاتے ہیں۔

سیما کی شادی 2014 میں جیکب آباد کے غلام حیدر نامی شخص سے ہوئی تھی جس سے ان کے چار بچے ہیں اور یہ جوڑا کراچی میں مقیم تھا۔ 2019 میں غلام حیدرمزدوری کرنے سعودی عرب چلے گئے اور سیما کا رابطہ سوشل میڈیا گیمنگ پلیٹ فارم پربھارت کے سچن مینا سے ہوا جو دوستی سے ہوتا ہوا محبت میں بدل گیا۔

سیما کا دعویٰ ہے کہ سچن اور انہوں نے نیپال میں شادی کرلی تھی۔

بھارتی قانون کیا کہتا ہے؟

امریکی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاسپورٹ ایکٹ کے مطابق غیر قانونی طریقے سے بھارت میں داخل ہونے والے کو 2 سے 8 سال تک کی قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبد الرحمن ایڈووکیٹ کے مطابق سیما حیدر کو ’فارنرز ایکٹ ’1946 کے تحت غیر قانونی تارکِ وطن سمجھا جانا چاہیے۔ اگر کوئی قانونی ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر ملک میں داخل ہو تو اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور سیکیورٹی ایجنسیاں معاملے کی ہرپہلو سے تفتیش کرتی ہیں۔ بھارت میں کسی پاکستانی شہری کے داخل ہونے کا معاملہ مزید حساس ہو جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2015 میں فارنرز ایکٹ میں ترمیم کرکے جاری کیا جانےوالا آرDrجو اب قانون بن چکا ہے، کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر جبر کی وجہ سے بھارت آئے تو اسے یہاں کی شہریت دی جا سکتی ہے۔ تاہم اس زمرے میں مسلمان شامل نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ، ’غیر قانونی طور پرملک میں داخل ہونے کا معاملہ قومی سلامتی کا ہے اور ایسے معاملات میں جلد ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں عدالت نے چند روز کے اندر کیوں ضمانت دے دی اس پر اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ عدالت کا آرڈرنہ دیکھ لیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ بھارت کی سلامتی اور آئینی انتظامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ابھی سی اے اے کے ضوابط طے نہیں پائے اس لیے تاحال کسی کو شہریت نہیں دی گئی تاہم سیما رند چونکہ بغیر ویزا کے بھارت میں داخل ہوئی ہیں اور مسلمان ہیں لہٰذا سی اے اے کے تحت بھی ان کو شہریت نہیں مل سکتی۔

سابق آئی پی ایس اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایم ڈبلیو انصاری کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں بھارت کے قوانین بہت سخت ہیں اور تاحال ایسے معاملات میں ان کے مطابق ہی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوتا ہے تو قانونی کارروائی کے بعد فارنرز ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت اسے اس کے ملک واپس بھیج دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے آئین کی دفعہ 258 اور پاسپورٹ ایکٹ میں بھی صراحت موجود ہے۔ سیما حیدر کے معاملے میں انتظامیہ کی جانب سے دکھائی جانے والی نرمی ناقابل فہم تو ہے ہی لیکن یہ بات ملکی سلامتی کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستان سے جُڑا معاملہ زیادہ توجہ پاتا ہے

معاملے کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات جس نوعیت کے ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ اس معاملے میں بہت ہی محتاط ہو کرجانچ کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق سیما حیدر نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ انگریزی اچھی بولتی ہیں اورکمپیوٹر کی ماہر ہیں۔ یہ بھی8 کہا جارہا ہے کہ سیما سے کئی پاسپورٹس، سم کارڈز اور سیل فونز برآمد ہوئے اور ان کے ایک بھائی پاک فوج میں ہیںان حقائق کی روشنی میں یہ معاملہ بہت حساس ہو جاتا ہے اور بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سیما حیدر کو قانون کے مطابق حراستی مرکز میں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن وہ سچن کے گھر میں ان کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی ہیں اور میڈیا کو دھڑلے سے انٹرویو دے رہی ہیں۔

عبد الرحمن ایڈووکیٹ کے مطابق، ’میں کئی برس تک ایسے معاملات میں بطور وکیل کام کرچکا ہوں لیکن ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے متعدد پاکستانیوں کو جو یہاں (بھارت )کی جیلوں میں بند رہے ہیں قانونی کارروائی کے بعد پاکستان بھجوایا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے پاکستانی ویزا نہ ہونے کے باوجود اجمیر کی درگاہ کی زیارت کے لیے چلے جاتے ہیں اور گرفتار کیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ برسوں تک جیل میں رہتے ہیں۔

سیما کے معاملے کو پراسرار قراردیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح انہیں ضمانت ملی، وہ میڈیا کو انٹرویو دے رہی ہیں اورمعاملے کے قانونی پہلو پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی اور پھر نیپال میں شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی سامنے نہیں آیا۔ اس کے پیش نظر متعدد سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔

ایم ڈبلیو انصاری نے میڈیا کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا جشن منانے کے بجائے محتاط رخ اپنائے۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک غلطی چھپانے کیلئے کئی غلطیاں کرنی پڑتی ہیں۔ معاملے کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر سیما غیر مسلم اور سچن مسلمان ہوتے تو کیا اس وقت بھی میڈیا کا یہی رویہ ہوتا؟۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سیما حیدر نے نہ صرف بھارتی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ انہوں نے بھارت نیپال معاہدہ برائے امن و دوستی 1951 کا بھی ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔

نیپال کی ویزا پالیسی کے مطابق اگر کسی ملک کا کوئی شہری جائز پاسپورٹ کے ساتھ آتا ہے تو اسے 150 روز کا سیاحتی ویزا دیا جا سکتا ہے۔ بہت سے پاکستانی اور چینی شہری اس قانون کی آڑمیں بھارت آجاتے ہیں اور سیما نے بھی وہی کیا۔ بھارت اور نیپال کے درمیان کھلی سرحد اس لیے وہاں سے نیپال جانے کیلئے کسی ویزہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

دوسری جانب غلام حیدر نے مکہ سے جاری ویڈیو میں بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی سے اپیل کی ہے کہ ان کی اہلیہ کو پاکستان واپس بھجوا دیا جائے۔ انہوں نے سیما کو طلاق دینے کی تردید کی جبکہ سیما کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان نہیں جائیں گی۔

سیما حیدر نے میڈیا سے گفتگو میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارت صرف سچن کی محبت میں اور ان کے ساتھ گھر بسانے آئی ہیں اس کے علاوہ ان کی کوئی اورنیت نہیں، سچن نے بھی میڈیا سے گفتگو میں سیما کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ غلط نیت سے آئی ہوتیں یا کوئی ایجنٹ ہوتیں تو اب تک سچ سامنے آگیا ہوتا۔

مشروط ضمانت پر جیل سے رہائی پانےوالی سیما کیس زیرِ سماعت ہونے تک اپنی رہائش تبدیل نہیں کر سکتیں۔

india

PUBG

Seema Rind