پی ٹی آئی دور میں تین ارب ڈالرز قرض دینے کا معاملہ ایف آئی اے اور نیب کے سپرد
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں تین ارب ڈالر کے قرضے آسان شرائط پر دینے کا معاملہ مشترکہ انکوائری کے لیے ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل کے سپرد کردیا، اور 15 دن میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
چیئرمین نورعالم خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین پی اے سی نے بتایا کہ گزشتہ روز مرکزی بینک نے پی ٹی آئی دور میں تین ارب ڈالر کے قرضوں کے اجرا کے معاملے پر بریفنگ دی۔
چیئرمین پی اے سی کے مطابق اسٹیٹ بینک نے قرض حاصل کرنے والوں کی نامکمل تفصیلات فراہم کیں، قرضے حاصل کرنے والے افراد کے نام دئیے گئے لیکن بینکوں کے نام نہیں بتائے گئے، گزشتہ روز ارکان کی تعداد کم ہونے کے باعث معاملہ پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
سید غلام مصطفی شاہ نے تجویز دی کہ قرضوں کا معاملہ ایف آئی اے یا نیب کو بھیجا جائے۔ محمد افضل ڈھاندلہ نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ 620 لوگوں نے اس ملک کولوٹا ہے، اجلاس کو ان کیمرہ نہیں ہونا چاہیے تھا، اس فورم پربھی نام نہیں آتے توبڑی بدقسمتی ہے، ہم رہیں یا نہ رہیں جلد ازجلد انکوائری کریں۔
چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ ہم ذاتی مفادات کیلئے کام نہیں کر رہے، جہاں بھی عوام کا پیسہ ضائع ہو گا وہاں پی اے سی متحرک ہو گی۔ وزیراعظم یا وفاقی وزیر جو بھی ہو قانون سے بالا ترنہیں، چیئرمین نیب سے کہتا ہوں پہلے میرے اثاثے چیک کریں، تین ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہے یہ رپورٹ عوام کے پاس آنی چاہیے۔
پی اے سی نے گزشتہ دور حکومت میں تین ارب ڈالر کے آسان قرضوں کے اجراء کے معاملے پر مشترکہ انکوائری کے لئے معاملہ ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل کے حوالے کردیا، اور 15 روز میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
اجلاس میں وزارت داخلہ کی آڈٹ رپورٹ بھی زیر غور آئی، جس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ ایف سی خیبر پختونخوا کی جانب سے نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے حاصل معاوضہ پر بینک منافع قومی خزانے میں جمع نہیں کروایا گیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایف سی کی 52 پلاٹونز کو قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سیکیورٹی پر مامور کیا گیا، کمپنیوں سے تنخواہوں کی مد میں حاصل رقم پر ایک کروڑ 74 لاکھ منافع ہوا جو خزانے میں جمع نہیں کروایا گیا، رقم پر منافع متعلقہ کمپنیوں کو ادا کر دیا جاتا ہے۔
پی اے سی نے تصدیق ہونے کی صورت میں آڈٹ اعتراض نمٹا دیا، اور چیئرمین پی اے سی نے آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا سے استفسار کیا کہ ایف سی اہلکاروں کی تنخواہ کتنی ہے۔
آئی جی ایف سی نے بتایا کہ اس وقت ایف سی اہلکار کی تنخواہ 40 ہزار روپے ہے، جو کچھ عرصہ قبل 33 ہزار تھی۔
نورعالم خان نے کہا کہ 40 ہزار روپے تنخواہ کے کیے کون اپنی جان دے گا۔ پی اے سی نے ایف سی اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔
پی اے سی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس اسلحے کے فقدان کا بھی نوٹس لے لیا۔
نور عالم خان نے کہا کہ صرف 30 گولیوں یا ایک میگزین سے کم نہیں چلے گا، کسی اہلکار کے شہید ہونے کے بعد اس کی بیوی بچے خوار ہو جاتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے پاس مناسب اسلحہ ہونا چاہئے۔
Comments are closed on this story.