Aaj News

جمعہ, دسمبر 27, 2024  
24 Jumada Al-Akhirah 1446  

شندور اور دنیا کی چھت پر بنا ’ماس جنالی‘

دنیا کی اس چھت پر قدم رکھتے ہی شندور جھیل کا نِیلگوں پانی اور یخ بستہ ہوائیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔
اپ ڈیٹ 12 جولائ 2023 06:25pm

سطح سمندر سے 12,500 فٹ (38000 میٹر) کی بلندی پر واقع ’دنیا کی چھت‘ کہلائے جانے والے خیبر پختونخوا کے خوبصورت مقام شندور ٹاپ جانے کے لئے اگر آپ خیبر پختونخوا سے گزر رہے ہیں، تو آپ کو دیر اپر سے شندور تک جانے کے لئے لواری ٹاپ کو کراس کرنا پڑتا ہے، جو ایک انتہائی خوبصورت اور ایڈونچر سے بھرپور سفر ہے، اس کی آرزو ہر اُس دل میں ہوتی ہے جو شندور سے آگاہی رکھتا ہے۔

یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔

میں پختونخوا کے حسن کے عشق میں بچپن سے مبتلا ہر اُس منظر کو دیکھنے کے لئے بے تاب رہتی ہوں، جو مجھے میری مٹی کی خوشبو کا احساس دلائے۔

صبح سویرے اپنے چند صحافی ساتھیوں کے ساتھ پشاور سے بائی ائر ہم چترال کی طرف روانہ ہوئے اور مقصد شندور فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں شریک ہونا تھا۔

پشاور سے سوات ایکسپریس کے حسین منظر سے لطف انداوز ہوتے ہوئے ہم دیر لوئر، پھر دیر اپر اور لواری ٹاپ پہنچے، جس کو چند سال قبل میں بائی روڈ کراس کر چکی تھی اور تب سے سوچتی تھی کہ یہ منظر آسمان کی بلندیوں سے کیسا لگتا ہوگا، آج اُس سوچ کی عملی شکل میرے سامنے تھی۔

نہایت مشکل لیکن ایڈونچریس منظر بار بار آپ کو قدرت کی حسین تخلیق کی جھلک دکھاتا نظر آرہا تھا۔ ایک گھنٹہ 20 منٹ تک کا سفر طے کرکے ہم چترال پہنچے۔ دریا کنارے ایک ہوٹل میں پہنچتے ہی خوبصورت موسم اور چاروں طرف پھیلے سبزے، پھولوں اور چنار کے درختوں کی خوشبو نے ہمارا استقبال کیا۔ ہر منظر اپنے اندر ایک ایسی کشش رکھتا تھا جس سے نکلنا مشکل ہو جاتا تھا۔

شندور کا سفر

دوسرے روز صبح سویرے ہم شندور کی طرف روانہ ہوئے اور چترال سے 45 منٹ کا سفر طے کر کے ہم ہیلی کے زریعے شندور پہنچے۔

راستہ تھا یا دنیا کا ایک عجوبہ، برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیاں اور آگے پیالے کی طرح درمیان میں پڑا شندور کا وہ حسین مقام جس کو دیکھنا ہر ایک کا خواب ہے۔

دنیا کی اس چھت پر قدم رکھتے ہی شندور جھیل کے نِیلگوں پانی اور یخ بستہ ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔

جھیل تھی یا ایسے لگ رہا تھا جیسے پیالے میں کسی نے نیلا پانی بھر دیا ہو۔

 شندور جھیل کا خوبصورت منظر
شندور جھیل کا خوبصورت منظر

ہندوکش پامیر اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کو ملاتے اس حسین سنگم پر برف سے چمکتی چوٹیوں نے مجھے حیران کر دیا اور میرے زبان سے ایک دم نکلا۔

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

ہم جب اُس مقام پر پہنچے جہاں فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو موجود پایا۔

بتایا گیا کہ تین روز میں تیس ہزار سے زائد افراد نے شندور کا وزٹ کیا ہے جبکہ ایک طرف ہزاروں خیموں پر پھیلی خیمہ بستی بھی نظر آئی۔

شندور فسٹیول کا تاریخی پس منظر

کہا جاتا ہے کہ سن 1935ء میں برطانوی راج کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر ای۔ ایچ کاب نے نیت قبول حیات کاکاخیل کو شندور کے مقام پر ایک عظیم الشان پولوگراونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

چونکہ نیت قبول حیات اس وقت اپنے علاقے کے حاکم ہوا کرتے تھے، اس لیے اپنے علاقے کے نوجوانوں کو ساتھ لے کر شندور پہنچ گئے اور بہت ہی کم عرصے میں شندور میں ایک شاندار پولوگراونڈ کی تعمیر کا کام مکمل کیا۔

اس وقت پولوگراونڈ کو ماس جنالی(Mas Junali) کا نام دیا گیا۔

ماس جنالی کھوار زبان کے الفاظ کا مرکب ہے، جس کے معنی ہے چاندنی رات میں کھیلنے کی جگہ۔

کاب نے نیت قبول حیات کے اس شاندار کام سے متاثر ہو کر کسی بڑے انعام کی پیش کش کی، مگر نیت قبول حیات نے انعام ذاتی طور پر لینے سے معذورت کرتے ہوئے انعام کو اجتماعی شکل دے کر یہ مطالبہ کیا کہ لندن سے ٹراؤٹ مچھلیاں لا کر دریائے غذر میں ڈال دی جائیں۔

کاب نے فورا مطالبہ مان کر لندن سے ٹراؤٹ مچھلیان منگوا لیں اور گولاغمولی کے قریب دریائے غذر میں ڈال دیں اب وہ مچھلیاں افزائش نسل کے بعد ہندارپ جھیل، کھوکش جھیل حتیٰ کہ خلتی جھیل تک پہنچ گئی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حیات کی اس چھوٹی سی کاوش کی وجہ سے ڈائرکٹوریٹ آف فشریز وجود میں آیا اور ہزاروں افراد کے رزق کا ذریعہ بنا۔

یوں مس جنالی نے چترال اور غذر کے ان مٹ رشتے کو مزید مستحکم بنانے میں پل کا کردار ادا کیا۔

تین روزہ شندور پولو فیسٹول کا اختتام

تین روزہ شندور پولو فیسٹیول کی رنگا رنگ تقریبات کے آخری روز پولو فیسٹول کے فائنل میچ میں چترال نے زبردست مقابلے کے بعد گلگت بلتستان کو 5 کے مقابلہ میں 7 گول سے شکست دی۔

 چترال نے زبردست مقابلے کے بعد گلگت بلتستان کو 5 کے مقابلہ میں 7 گول سے شکست دی (تصویر: فرزانہ علی)
چترال نے زبردست مقابلے کے بعد گلگت بلتستان کو 5 کے مقابلہ میں 7 گول سے شکست دی (تصویر: فرزانہ علی)

میرے لئے یہ سب بہت حیران کن تھا، میں نے ساری تقریب چلتے پھرتے دیکھی، کیونکہ ایک صحافی کا تجسس مجھے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔

پولو کھیل سے متعلق لوگوں کے جذبات اور خاص کر گلگت اور چترال کی ٹیموں کی سائیڈ لینے والوں کا ان جذبات کا اظہار میرے لئے بڑا اہم تھا اور میں نے دیکھا کہ نہ صرف تماشائی بلکہ دونوں علاقوں کے سیکورٹی اہلکار بھی ہر گول پر اپنے اپنے طریقے سے اظہار کرتے۔

چترال کی فتح نے چترالیوں کے چہرے پر جو رنگ بکھیرے وہ دیکھنے والے تھے، کیونکہ گذشتہ ایک دہائی سے یہ جیت چترال کا مقدر بن رہی ہے اور اس جیت کا تسلسل قوس قزاح کی شکل میں چترال کے لوگوں چہروں پر نظر آیا۔

فیسٹیول کے اختتام پر بچوں نے ٹیبلو، فرنٹیئر کور اور گلگت بلتستان کے بینڈز نے قومی نغموں کی دھنیں پیش کیں۔

 فیسٹیول کے اختتام پر کچھ پروگرامز بھی پیش کئے گئے (تصویر: فرزانہ علی)
فیسٹیول کے اختتام پر کچھ پروگرامز بھی پیش کئے گئے (تصویر: فرزانہ علی)

مقامی فنکاروں نے وزیرستانی، چترالی، خٹک اور کیلاشی رقص پیش کیا۔

پیرا گلائیڈرز اور پاکستان آرمی کے ایس ایس جی کمانڈوز نے پیراٹروپنگ کے ذریعہ حاضرین سے داد وصول کی۔

فیسٹیول کے آخری روز کور کمانڈر پشاور نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور رنراپ اور جیتنے والی ٹیموں میں انعامات تقسیم کئے۔

شندور پولو فیسٹیول کے فروغ اور سابقہ کھلاڑیوں کی بہبود کیلئے فنڈز کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔

آئی لو مائی پاکستان

سبزہ زار پر سفید لباس پر سبز دوپٹے اوڑھے سبز ہلالی پرچم کا عکس بنے بیٹھی بچیوں نے توجہ اپنی طرف مبذول کروائی تو میں ان کی طرف کھنچی چلی گئی۔ جہاں میری ملاقات مستوج کی فائزہ سے ہوئی جنہوں نے اختتامی تقریب میں پاکستان سے محبت کا اظہار آئی لو مائی پاکستان گا کر کیا۔

 جھنڈے میں ملبوس ننھی بچیاں جن میں مستوج کی فائزہ بھی ہے (تصویر: فرزانہ علی)
جھنڈے میں ملبوس ننھی بچیاں جن میں مستوج کی فائزہ بھی ہے (تصویر: فرزانہ علی)

شندور کا بازار

میں فیسٹول کے دوران میں گھومتے گھومتے خیموں کی مدد سے بنائے گئے ایک بازار میں پہنچ گئی۔

یہاں مہمند کے خورشید نے بتایا وہ 4 روز قبل پرانے جیکٹس اور سوئیٹرز لے کر آیا تھا۔ 15 سے 16 ہزار کا ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہوا، لیکن خورشید خوش تھا کہ اسے فائدہ ملا ہے۔

 خورشید کےبھی تقریباً تمام کپڑے بک گئے تھے (تصویر: فرزانہ علی)
خورشید کےبھی تقریباً تمام کپڑے بک گئے تھے (تصویر: فرزانہ علی)

مستوج کا امام دین فروخت کرنے کے لئے 400 سے 500 جوڑے جوتے لے کر آیا تھا جو کہ تقریب فروخت ہو گئے، جس پر وہ بھی بہت خوش تھا۔ اسی طرح پکوڑے ،چائے ،چکن پیسز یا پھر چشمے بیچنے والوں کا بھی کاروبار خوب چلا ۔

 امام دین اپنے جوتے بکنے پر خوش تھا (تصویر: فرزانہ علی)
امام دین اپنے جوتے بکنے پر خوش تھا (تصویر: فرزانہ علی)

شندورکا اوپن کسنیو

شندور کی خیمہ بستی کے ایک حصے میں سجا مقامی کسینو بھی کچھ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، جہاں 10 روپے کی انٹری سے مقامی کھیلوں کے زریعے ایک کا دس بنانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

 کچھ لوگ مقامی کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے (تصویر: فرزانہ علی)
کچھ لوگ مقامی کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے (تصویر: فرزانہ علی)

آپ گیند کو ٹائر سے گزارنے کا فن جانتے ہوں یا پھر آپ کی قسمت اچھی ہو تو لکڑی کے دائرے میں لگا چھوٹا سا تیر آپ کی جیت کا سبب بن سکتا ہے یا نمبرز پر لگایا گیا بٹ آپ کو جتوا سکتا ہے، تو خیموں کے درمیان سجے یہ کسینو آپ کا دل بہلانے کے لئے اچھے ہیں۔

لیکن ہزاروں کی خواہش لے کر مت جائیے گا کیونکہ وہاں کھیلنے والوں کی اکثریت مقامی ہی ہوتی ہے جو رنگ جمانے اور چند سو کمانے کے لئے ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔

shandur polo festival

Mas Junali

Heaven on Earth