امریکا یوکرین کو بدنامِ زمانہ ’کلسٹر بم‘ فراہم کرے گا
امریکی محکمہ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین کو بدنام زمانہ کلسٹر بم فراہم کیے جائیں گے۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کی جیت یوکرین کے کلسٹر بم کے حصول کے خطرات سے بھی بدتر ہے۔
خیال رہے کہ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں 2008 میں منظور ہونے والے کنونشن کے تحت کلسٹر بموں کی تیاری، ذخیرہ کرنے، منتقلی اور استعمال پر پابندی عائد ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔
پینٹاگون نے انکشاف کیا کہ یوکرین کو کلسٹر بم کی ترسیل اس کے جوابی حملے کے لیے موزوں ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوگی۔
وائٹ ہاؤس نے یہ بھی کہا کچھ اتحادیوں کو واشنگٹن کی طرف سے یوکرین کو کلسٹر بم بھیجنے پر تحفظات ہیں۔
کلسٹر بم، بموں کی ایک ایسی قسم ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے مزید بم ہوتے ہیں، اس بم کے استعمال سے اس سے نکلنے والے مزید چھوٹے بم وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے روس پر یوکرین کی جنگ میں کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے زور دیا کہ کیف کو نیٹو میں شمولیت کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔
ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ کیف کو کلسٹر بم فراہم کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔
دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ نے روس اور یوکرین سے کلسٹر بم کا استعمال بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور امریکا پر زور دیا ہے کہ کیف کو کلسٹر بم فراہم نہ کیا جائے۔
کلسٹر بموں کا استعمال 1940 کی دہائی میں شروع ہوا اور عام شہری آبادی نے اس مہلک بارود کے استعمال کی قیمت چکائی اور ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
انٹرنیشنل ریڈ کراس نے بے گناہوں کے اس بھاری جانی نقصان پر بارہا تشویش کا اظہار کیا اور 2000 میں اقوام عالم سے یہ سفاکی روکنے اور اس سلسلے میں بات چیت کی اپیل کی۔
تقریباً 7 سال بعد ناروے نے کلسٹر بموں کا استعمال روکنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اسے ’اوسلو پراسس‘ کا نام دیا گیا۔
Comments are closed on this story.