روس میں بھی قرآن پاک کی بے حرمتی، ملزم گرفتار
سویڈن کے بعد روس میں بھی قرآن پاک کی بےحرمتی سے متعلق واقعہ سامنے آیا ہے۔
دو ہفتے قبل سویڈن میں اسی طرح کی گھناؤنی حرکت نے مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا تاہم، روسی حکام کا ردعمل بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے توہین میں ملوث شخص کو گرفتار کرکے اس کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر لیا ہے۔
روسی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق اس نے ایک ویڈیو شیئرکرنے والے 28 سالہ مصری شہری کے خلاف فوجداری مقدمے کا آغازکیا ہے۔
اس شخص نے مغربی روس کے شہر اولیانوسک میں مقدس کتاب کی بے حرمتی کرتے ہوئے ویڈیو بنائی تھی۔
اولیانوسک میں تحقیقاتی کمیٹی کے دفتر نے اس شخص کو غنڈہ گردی اور مذہبی جذبات کی توہین کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
ایک بیان میں تفتیشی ایجنسی نے کہا کہ یہ گھناؤنی حرکت یکم جولائی کو کی گئی۔
روسی نیوز ویب سائٹ سلکی وے نیوز نے تفتیشی ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ مشتبہ شخص دریائے سویاگا پر پیدل چلنے والے پل پرموجود تھا، جو ابلوکوف اور ووروبیوف جی اولیانووسک کی گلیوں کو ملاتا ہے، اس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لیے مشتعل کرنے والی حرکات کیں“۔
کمیٹی کے دفتر نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے جانے والے بیان میں کہا کہ اس شخص کو جس نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین کرنے کے بعد خود کو گولی ماری، کو غنڈہ گردی اور مذہبی توہین کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
مشتبہ شخص کی رہائش گاہ کی بھی تلاشی لی جا رہی ہے۔
روسی فیڈریشن کے کرمنل کوڈ کی دفعہ 148 ”معاشرے کی واضح تضحیک اور مذہبی جذبات کی توہین کرنے کے لیے کیے جانے والے عوامی اقدامات“ کو جرم قرار دیتی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں کہا تھا کہ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے مقدس ہے اور یہ سب کے لیے مقدس ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ روس میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین جرم ہے۔
داغستان میں دربنت کی جمعہ مسجد کے دورے کے دوران قرآن پاک کا ایک نسخہ تحفے میں دیے جانے کے بعد پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں لوگوں کے مذہبی جذبات کا احترام نہیں کیا جاتا اور پھر یہ کہنے کی جرات بھی رکھتے ہیں کہ یہ کوئی جرم نہیں ہے۔‘
جمعہ مسجد کو روس کی قدیم ترین مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پیوٹن نے یہ دورہ عید الاضحی ٰ کے پہلے دن جمعرات 29 جون 2023 کو کیا تھا جب سویڈن میں ایک عراقی پناہ گزین نے عدالت کی اجازت سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی۔
تاہم مسلم دنیا کے ردعمل نے سویڈن کے حکام کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سویڈن کے وزیرانصاف گنرسٹرومر نے رواں ہفتے کہا تھا کہ حکومت اس قانون میں ترمیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتی ہے جس کے تحت مظاہرین کو مقدس کتابیں جلانے کی اجازت دی گئی ہے۔
Comments are closed on this story.