سولر پینل پر کسٹم ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود سرکاری ادارے شمسی توانائی پر منتقل نہ ہوسکے
ملک میں شمسی توانائی کا استعمال بڑھانے کے لئے بجٹ میں خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک بھی سولر انرجی کے لئے قرضے دے رہا ہے۔
توانائی کی قلت سے متعلق حکومت نےاعلان کیا تھا کہ پاکستان میں سولر پینل اور بیٹریز کی تیاری کے لئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے مگر مہنگے درآمد ہونے والے سولر پینلز اور بیٹریز کی وجہ سے بیشتر سرکاری ادارے اب تک شمسی توانائی پر منتقل نہ ہوسکے۔
اس وقت پاکستان میں سولر انرجی کا حصول کافی مہنگا ہے اور اس کی وجہ پینل، بیٹری اور پرزہ جات کی درآمد ہے۔ متبادل توانائی کے فروغ کے لئے 2024 تک اسٹیٹ بینک کی قرضوں کی اسکیم بھی جاری ہے لیکن فارن ایکس چینج کی کمی یہاں بھی مسائل پیدا کر رہی ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل نے آج نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کام کررہی ہے کہ جو پبلک کی عمارتیں ہیں ان پر سولر پینل لگیں لیکن اس میں مسئلہ جو پیش آرہا ہے وہ فارن ایکس چینج کا ہے ابھی ہمیں چاہئے کہ ہم پاکستان میں سولر پینلز اور بیٹریز مینوفیکچر کریں۔
حکومت نے سال 2030 تک 60 فیصد بجلی متبادل توانائی سے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بعض سرکاری ادارے اور اسپتال سولر پر منتقل ہوگئے ہیں لیکن مقامی سطح پرمینوفیکچرنگ نہ ہونے سے تاحال کئی چینلجز درپیش ہیں۔
صدر کراچی چیمبر طارق یوسف کہتے ہیں کہ پہلے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی لیکن حکومت نے اس پر کمی کی ہے اگر یہ یہاں پرمینوفیکچر ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو یہ بہت اچھا پروجیکٹ ہوگا۔
بعض شہری گھروں میں سولر پینل لگا رہے ہیں لیکن سرکاری اداروں کی سولر انرجی پر مکمل منتقلی کے لئے ابھی کچھ وقت درکار ہوگا۔
Comments are closed on this story.