بھارتی نوسربازوں نے گردے بیچنے پر مجبور لوگوں کو فراڈ کا نشانہ بنا ڈالا
بھارت میں گردوں کی فروخت غیر قانونی ہے لیکن مجبور اور قرض کے بوجھ تلے دبے افراد پیسوں کے حصول کیلئے اپنی جان سے کھیل بیٹھتے ہیں۔ گردوں کی غیرقانونی فروخت ایک منظم کاروبار بن چکی ہے جہاں ایسے افراد کو فراڈ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سوریہ بھی انہی میں سے ایک ہے جس نے 2020 میں ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد کام نہ کرسکنے پر اپنا ایک گردہ بیچنے کا فیصلہ کیا۔ دو بیٹیوں کی ماں پر 5 لاکھ روپے قرض تھا اور شوہرکی نوکری جانے کے بعد وہ گھر کی واحد کفیل تھی۔
سوریہ نے ایک فیس بک پیج پرگردہ فروخت کرنے کیلئے پوسٹ کی ۔ کچھ دن بعد خود کو ’ڈاکٹر سینڈی‘ کہنے والے شخص نے انہیں کال کی اور بتایا کہ نئی دہلی کے قریب غازی آباد کا گیتروہ میڈیکل سینٹر ان کا گردہ ایک کروڑ بھارتی روپوں میں خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ پُرکشش رقم سوریہ کے لیے اپنا قرض چکانے اور آئندہ کئی سال تک کے خرچے سے بےفکرہوجانے کیلئے بہت کافی تھی۔
خاتون کو بتایا گیا کہ وہ ایک فارم بھر کرڈونر کارڈ کیلئے 8 ہزار روپے فیس کی ادائیگی کریں گی جس سے انہیں فروخت کے عمل تک رسائی مل جائے گی۔ رقم ادا کرنے سے قبل سوریہ کو موہن فاؤنڈیشن (ملٹی آرگن ہارویسٹنگ ایڈ نیٹ ورک) کا نمبر مل گیا، یہ غیر منافع بخش تنظیم اعضاء کے عطیات کو فروغ دیتے ہوئے ان لوگوں کیلئے ڈونر کارڈ جاری کرتی ہے جو مرنے کے بعد اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے ہیلپ لائن آپریٹر نے سوریہ کو بتایا، ’ڈونر کارڈ کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی ، مجھے لگتا ہے آپ کے ساتھ فراڈ ہواہے‘۔
موہن فاؤنڈیشن کو جلدعلم ہوا کہ ان کی فاؤنڈیشن کا نام ’جعلی مڈل مین‘ نے لوگوں کو پھانسنے کیلئے استعمال کیا تھا۔ سوریہ جیسی کالز اتنی کثرت سے آتی ہیں کہ ڈاکٹر شروف اور ان کی ٹیم نے صورتحال پر نظر رکھنے کے لئے انہیں جمع کرنا شروع کردیا۔
نقد رقم کے لیے بے چین بہت سے لوگ فیس بک پر اپنے گردے فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں اپریل 2020 میں ریکارڈ کی گئی ایک کال میں، ایک شخص نے موہن کو ڈاکٹر آریان کرن کا پوچھنے کیلئے فون کیا اور بتایا کہ کے گردے کی فروخت کا سودا ہوا تھا۔ آپریٹر نے اسے سمجھایا کہ ڈاکٹر کرن نہیں ہیں اور اسے دھوکہ دیا گیا ہے۔
موہن فاؤنڈیشن کے ذریعہ حاصل کردہ واٹس ایپ گفتگو میں نام نہاد ڈاکٹر کرن کا کہنا تھا، ’رجسٹریشن کی لاگت 7 ہزار 894 روپے ہے اور اس کے بعد ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میرے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں‘۔
ایک اور کال میں رقم کا انتظام نہ کرسکنے والی انتہائی مفلس خاتون سے کہا جاتا ہے کہ ، میں اس میں آپ کی مدد نہیں کر سکتا، اگر آپ سنجیدہ ہیں تو یہ کریں’۔
ایک اور شخص نے فون کیا کہ اس نے جعلی نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن کو ”زندہ ڈونرکارڈ“ کے لئے 9،999 روپے (122 ڈالر) ادا کیے اور فونی کارڈ حاصل کرنے کے بعد اس کا ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔
اس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھنے والے برطانوی تربیت یافتہ ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر سنیل شروف کا کہنا ہے کہ ، ’زندہ انسانوں کا استحصال کرنابدترین ہے‘۔
موہن فاؤنڈیشن نے سوریہ کو شکایت درج کرانے کا مشورہ دیا، تو خاتون کو ڈرتھا کہ پولیس پریشانیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن فاؤنڈیشن نے چنئی پولیس کو رپورٹ کیے گئے بہت سے دیگر لوگوں کے ساتھ شکایت کی حمایت کرکے ان کے لئے راہ ہموار کی۔
خاتون کا کہنا ہے کہ، ’میں نے یہ بات رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان لوگوں کو بچایا جا سکے جو یہ غلطی کرنے والے ہیں، ہم صرف اسی صورت لڑ سکتے ہیں جب ہم یہ بات عام کریں‘۔
بھارت میں مرنے والے عطیہ دہندگان کے اعضاء کا عطیہ محدود ہے، اور زیادہ تر پیوند کاری زندہ عطیہ دہندگان اور قریبی رشتہ داروں جیسے کہ والدین ، بہن بھائیوں ، شریک حیات یا پھر دوستوں اور دور دراز کے رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہے۔ جس سے یہ نظام اچھی طرح سے منظم نظر آتا ہے۔
ایک مختلف قسم کا فیس بک بازار
سب کے لئے قابل رسائی سوشل میڈیا ایپ ’فیس بک‘ گزشتہ ایک دہائی میں اعضاء سمیت ہر طرح کی چیزوں کی خرید و فروخت کا بازار بن گئی ہے،مایوس فروخت کنندگان اور خریدار آن لائن امید کی تلاش میں رہتے ہیں اور دھوکہ باز ان پریشانیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انٹرنیٹ تک رسائی سے پہل سڑک پر غیر قانونی گردوں کی خرید و فروخت زبانی طور پر ہوتی تھی۔
2004 کے سونامی کے کچھ سال بعد اعضاء کی پیوند کاری کو منظم کرنے کے قوانین نافذ کیے گئے تھے ، جس میں سوریہ کی آبائی ریاست تامل ناڈو سمیت برصغیر کے کچھ حصوں میں تباہی ہوئی تھی ، جس میں 8،000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ کوئی نوکری یا گھر نہ ہونے کی وجہ سے، زندہ بچ جانے والے بہت سے غریب لوگوں نے ضروری نقد رقم حاصل کرنے کے لیے اپنے اعضاء بیچنے کا رخ کیا۔ گردے کی مارکیٹ اس قدر پھیل گئی کہ ولی واکم نامی اضلاع میں سے ایک کو ”کڈنی واکم“ کا لقب دیا گیا۔
تامل ناڈو 1994 میں انسانی اعضاء اور ٹشوز کی پیوند کاری ایکٹ پاس ہونے کے بعد لاشوں کی پیوند کاری شروع کرنے والی پہلی ریاستوں میں سے ایک تھا۔ 2008 میں ، اس نے کیڈور ٹرانسپلانٹ پروگرام (سی ٹی پی) کے ذریعے ملک بھر میں لاش کے اعضاء کے عطیات کو فروغ دینے کی راہ ہموار کی – جسے 2015 میں ٹرانسپلانٹ اتھارٹی آف تمل ناڈو (ٹرانسٹن) کا نام دیا گیا جو اب بھی معیاری آپریٹنگ طریقہ کار قائم کرتا ہے ، جس میں زندہ عطیات بھی شامل ہیں۔
اس نظام نے گردوں کی حقیقی فروخت کو مزید مشکل بنا دیا ہے ۔انٹرنیٹ تک سستی اور آسان رسائی نے بھارت کی 1.4 بلین آبادی میں سے تقریبا نصف کو فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر کسی بھی چیز کی مارکیٹنگ کے لئے آسان جگہ بنا دیا ہے۔
ایسی صورتحال 2020 میں کووڈ 19 کے دوران پھرنظرآئی۔ جیسے جیسے لوگوں نے اپنی نوکریاں کھوئیں اور آمدنی کم ہوئی، بہت سے لوگوں نے اپنے اعضاء بیچنے کی کوشش کا سہارا لیا۔ فیس بک پیجز اور گروپس سامنے آئے، سوریہ جیسے ہزاروں لوگوں نے اسے فالو کیا۔ وہاں ڈاکٹروں اور معروف اسپتالوں کا روپ دھارکر جعلی مڈل مین نے ان کے اعضاء خریدنے کی پیش کش کی۔ ممکنہ فروخت کنندگان ”ڈونر کارڈ“ یا ”رجسٹریشن فیس“ کے طور پر ابتدائی رقم ادا کرتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ فروخت واقعتا ہوتی ہے یا نہیں۔ لیکن جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ اس عمل میں بہت سے لوگوں نے پیسہ کھو دیا ہے ، جس سے وہ مزید قرض میں جکڑے گئے۔
گردے عطیہ کرنے والوں کا اسکینڈل
الجزیرہ کے لئے ایلونورا بیانچی کے فیس بک پیجز کے اسکرین شاٹس کے مطابق مایوس فروخت کنندگان سے فوری پیسہ کمانے کی کوشش کرنے والے دھوکے باز فیس بک پر پوچھتے ہیں، ’کیا آپ پیسے کے لئے اپنا گردہ بیچنا چاہتے ہیں؟‘۔ ایک فیس بک پیج کا نام پوچھتا ہے،مسکراتے ہوئے سرجن کی پروفائل تصویر کے نیچے پیج پر لکھا ہے کہ چنئی کے گلینیگلز گلوبل اسپتال کو گردے کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر جان سمپسن آپ کے گردے 60 ملین بھارتی روپے (732,138 ڈالر) میں خریدنے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن تصویر میں نظر آنے والے ڈاکٹر ڈاکٹر پال ناسیف ہیں، جو ایک امریکی پلاسٹک سرجن ہیں اور ایک رئیلٹی سیریز کی میزبانی کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ گلینیگلز گلوبل اسپتال کا کسی بھی طرح سے اس فیس بک پیج سے کوئی تعلق نہیں ہے جو گردے بیچنے والوں کی تلاش میں تھا. ڈاکٹر نسیم نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اس صورتحال سے لاعلم ہیں اور فیس بک سے اس پیج کو ہٹانے کے لیے کہیں گے۔
تقریباً ہر براعظم میں کلینک ہونے کا دعویٰ کرنے والا ’گلوبل کڈنی کمپنی‘ نامی نایک فیس بک پیج سرجنز کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے گردہ فروخت کرنے کے خواہشمندوں سے پوچھتا ہے، ’کوئی تیار ہے؟‘۔ تبصروں میں کہا جاتا ہے، ’’ہاں مجھے پیسے کی ضرورت ہے، تم کتنی رقم دے رہے ہو؟‘‘ ۔ جواب میں گلوبل کڈنی کمپنی نے عطیہ دہندگان کی کامیابی کا سرٹیفکیٹ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ براہ مہربانی ہمیں نجی طور پر پیغام بھیجیں۔
ایسے فیس بُک پیجز کے علاوہ پبلک گروپس بھی ہیں۔ “عطیہ کرکے دوسروں کو زندگی دیں’ نامی گروپ کے ارکان کی تعداد 10,229 تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر صارفین بھارت میں رجسٹرڈ ہیں لیکن بہت سے افریقہ ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بھی پائے جاتے ہیں۔
الجزیرہ نے سات فیس بک پیجز اور نو عوامی گروپس کی چھان بین کی جن کے 24 ہزار سے زائد فالوورز اور ارکان تھے۔ اگرچہ یہ معلوم نہیںکہ ان میں سے کتنے ”ڈونر کارڈ“ کی ادائیگی کی چال میں پھنسے ، لیکن دھوکہ دہی کے اس کاروبار میں ہزاروں ڈالرز داؤ پر لگے تھے۔
جعلی اکاؤنٹس
چنئی کے اپولو ہاسپٹل کے جنرل منیجر آف آپریشنز نے الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسپتال کے نام کا استعمال لوگوں کو جعلی فیس ادا کرنے کا لالچ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں قائم رضاکارانہ صحت کی تنظیم نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن (این کے ایف) کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ دھوکہ باز اس کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے ایک جعلی ورژن نے ایک ”ریسکیو ٹیم“ تشکیل دی جس میں ممبئی میں واقع دفتر کی فہرست ہے اور جعلی عطیہ دہندگان اور ٹرانسپلانٹ کارڈزکی قیمت کی فہرست کے ساتھ بذریعہ ای میل بھی جواب دیتا ہے۔
تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ کارتک گردے عطیہ کرنے والے فیس بُک پیج کے منتظم ہیں۔ انہوں نے اب اپنا پروفائل لاک کر دیا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ان کے پاس ادب میں ڈگری ہے اور وہ اکثر مذہبی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔
کارتک نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس نے 2017 میں مالی مشکلات کا شکار ہونے کے بعد اپنا گردہ فروخت کرنے کی کوشش کی اور فیس بک پر ملنے والے دھوکہ بازوں کو رقم ادا کی۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے اپنا فیس بک پبلک گروپ شروع کیا جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ الجزیرہ نے پیج بند کرنے سے پہلے جو پوسٹس دیکھی تھیں ان میں سے کچھ میں گردے عطیہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور کم از کم ایک شخص نے لکھا تھا کہ وہ اپنا گردہ عطیہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اسے دی جانے ولای رقم کے بارے میں بتائیں جو بھارتی کرنسی میں ہو۔
کارتک کا کہنا ہے کہ انہوں نے کمیشن کیلئے کئی بار ٹرانسپلانٹ میچ بنائے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ گردے بیچنا غیر قانونی ہے اور انہیں صرف عطیہ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے الجزیرہ کو کوئی ایسا ثبوت فراہم کرنے سے انکار کر دیا جو ان کے دعووں کی تصدیق نہ کر سکے۔
فیس بک چلانے والی کمپنی میٹا پلیٹ فارمز کا کہنا ہے کہ اس کے پاس انسانی استحصال کے خلاف واضح قوانین ہیں جن میں اعضاء کی اسمگلنگ اور اسکینڈلز بھی شامل ہیں۔
کمپنی نے واضح کیا کہ جس طرح کوئی پولیس فورس 100 فیصد جرائم نہیں روکسکتی، اسی طرح کوئی بھی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی ہمارے جیسے پلیٹ فارمز سے 100 فیصد دھوکہ دہی کو دور نہیں رکھ سکتی، خصوصاً جب دھوکہ باززیادہ نفیس ہوتے جا رہے ہیں۔
میٹا نے الجزیرہ کی جانب سے نشاندہی کیے جانے والے کچھ فیس بُک پیجز صفحات کو بند کر دیا جن میں ’کڈنی فروخت کرنے‘ بھی شامل تھے۔
پبلک گروپس اور پیجز جن پر ’کیا آپ پیسے کے عوض اپنا گردہ بیچنا چاہتے ہیں‘ اور ’میں اپنا گردہ بیچنا چاہتا ہوں‘ جیسے نام اب بھی موجود ہیں، جبکہ انڈین کڈنی ٹرانسپلانٹ پیشنٹ گروپ اور کڈنی اینڈ آرگن ڈونرز جیسے کچھ گروپس اور پیجز 2014 سے فعال ہیں۔
ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر سنیل شروف کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریبا 10 لاکھ بھارتیوں میں گردوں کی دائمی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے اور لاکھ 2 افراد گردے فیل ہونے کے آخری مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے خطرناک تعداد میں اموات واقع ہوتی ہیں۔
Comments are closed on this story.