Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں درخواستگراز کے ساتھ ملاقات کے بعد مقرر کیں، جسٹس طارق

نئے قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت تک عدالت کو چلانا کیا قانونی خلاف ورزی نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ
اپ ڈیٹ 05 جولائ 2023 01:00pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

سویلین کے خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر سپریم کورٹ نے 22 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ جس میں سینئر ججوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس طارق طارق مسعود کے نوٹ شامل ہیں۔

جسٹس طارق مسعود نے لکھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار اور انکے وکیل سے ملاقات کے فوراً بعد درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔

جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجر کے قانون کو عدالت نے اس قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت تک معطل کر رکھا ہے لیکن اگر درخواستیں بالآخر مسترد ہو گئیں تو کیا درمیانی مدت میں سپریم کورٹ کی کارروائی خلاف قانون نہیں ٹھہرے گی۔

سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجر قانون کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں کے ساتھ مل کر ہی بینچ تشکیل دے سکتے ہیں اور اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے 22 جون کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کے آرڈر پر 7 ججز نے دستخط کیے، تحریری حکم کے ساتھ ویب سائٹ سے اتارا جانے والا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کے بھی نوٹ شامل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کے مطابق چیف جسٹس کو اہم بنیادی انسانی حقوق کے معاملے پر فُل کورٹ بنانے کا کہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات فل کورٹ سنے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ انہوں نے نشاندہی کی کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی، لیکن اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ عدالت عظمٰی نے قانون کو جنم لینے سے پہلے ہی معطل کردیا۔

انہوں نے لکھا کہ میں نے تحریری جواب میں نشاندہی کی اس قانون کے خلاف درخواستیں منظور ہوں گی یا مسترد، اگر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں تو درمیانی مدت میں عدالت کوچلانا کیا اس قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ معزز چیف جسٹس نے مجھے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے، مخمصے سے اسی وقت نکلا جاسکتا ہے جب اس قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ کریں یا حکم امتناع واپس لیں۔

چیف جسٹس کے بعد عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج نے کہاکہ جو سوال چیف جسٹس نے کیا کہ کب تک چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں چیف جسٹس ہی بہترجواب دے سکیں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس کررہے ہیں، ان درخواستوں کے حوالے سے خود چیف جسٹس جواب دے سکتے ہیں کہ کب فیصلہ ہوگا، درخواستوں پر فیصلہ کیسے کریں یہ بھی چیف جسٹس کی صوابدید پر منحصر ہے، پوری قوم کی طرح میں بھی منتظر ہوں فیصلہ جلد ہو، عدالت کی کارروائی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو رہی ہے۔

جسٹس فائزعیسٰی نے نوٹ کے ساتھ 17مئی کا چیف جسٹس کو دیا گیا جواب بھی منسلک کیا

جسٹس فائز نے کہاکہ ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل سے ملتے جلتے 26 مقدمات عدالت عظمی میں پہلے سے دائر ہیں، یہ مقدمات پشاور ہائی کورٹ کے 17اکتوبر 2019 فیصلوں کے خلاف دائر کیے گئے، پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا انٹرم سینٹرزسے متعلق قوانین آئین سے متصادم ہیں، اس فیصلے کے خلاف درخواست گذار نمبر چار نے سابق وزیراعظم کے دور میں حکومت نے اپیل دائر کی، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 24 اکتوبر 2019 کو حکم امتناع جاری کیا، وہ حکم امتناع کئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برقرار ہے، اس کی آخری سماعت دسمبر 2019 میں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک دفعہ کسی مقدمے کی سماعت شروع ہو جائے تو اس کا بلا تاخیر فیصلہ بھی ہوتا ہے، ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود موجودہ مقدمے سے ملتے جلتے ان 26مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ عدالت عظمیٰ میں روایت رہی بینچ کی تشکیل اور دیگر امور میں سینئر ججز سے مشورہ لیا جاتا تھا، چیف جسٹس گلزار احمد متواتر جسٹس عمر عطا بندیال سے مشاورت کرتے تھے، ہر آئینی مقدمے میں جسٹس بندیال کو سربراہی دی یا انہیں بینچ کا حصہ بنایا، جب سے جسٹس بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا سینئر ججز سے مشاورت کی روایت ترک کر دی، نہ مجھ سے نہ سینئر جج سردار طارق مسعود سے کوئی مشاورت کی، چیف جسٹس جسٹس بندیال نے تمام ضروری معاملات اپنی مرضی یا چنیدہ اہلکاروں کے ذریعے چلائے۔

انہوں نے کہاکہ ججوں کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، کبھی فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا، ججوں کی فل کورٹ میٹنگ تو نہ بلائی لیکن درخواست گزاروں اور ان کے وکلاء کو ترجیح دی۔

جسٹس طارق مسعود کا نوٹ

جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ سویلین کے فوجی ٹرائل کے خلاف درخواست گزار وکیل کے ساتھ چیف جسٹس کو ملا اور چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کے اگلے روز مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ بینچ کی تشکیل کے حوالے سے ان کے ساتھ کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔

Justice Qazi Faez Isa

Supreme Court of Pakistan

justice tariq masood

CIVILIANS TRIAL UNDER ARMY ACT