Aaj News

منگل, ستمبر 17, 2024  
12 Rabi ul Awal 1446  

قوانین معطل کرنے پرامریکی سپریم کورٹ کیخلاف حد سے تجاوز کے الزامات، ججوں کے مواخذے کی دھمکی

'یہ طاقت کی توسیع ہے جس پر ہمیں واقعی توجہ مرکوز کرنی چاہیے'
شائع 03 جولائ 2023 10:06am
امریکی شہری واشنگٹن ڈی سی میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہرجمع : تصویر/ وی او اے
امریکی شہری واشنگٹن ڈی سی میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہرجمع : تصویر/ وی او اے

امریکی ڈیموکریٹک کانگریس کی رکن اور ایکٹوسٹ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ قدامت پسند سپریم کورٹ ”خطرناک حد تک آمریت کی جانب بڑھ رہی ہے“، انہوں نے دھمکی دی کہ حالیہ اقدامات کے لیے ججوں کے مواخذے کا غیرمتوقع منظر نامہ ایک بار پھر پیدا ہوگیا ہے۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کالجوں میں مثبت اقدامات، ایل بی جی ٹی کیو پلس کے حقوق اور جو بائیڈن کے ’اسٹوڈنٹ لون ریلیف پروگرام‘ کالعدم قرار دینے والے جیسے فیصلے سُنائے۔

الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے سی این این کی اسٹیٹ آف دی یونین کو بتایا کہ ، “ ایسے فیصلے عدالت میں آمریت اور اقتدار کی مرکزیت خطرناک حد تک بڑھنے کا اشارہ دیتے ہیں۔“

رکن ڈیمو کانگریس نے امریکی سپریم کورٹ کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنا کرداراس طرح بڑھا رہے ہیں جیسے خود کانگریس ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ یہ طاقت کی توسیع ہے جس پر ہمیں واقعی توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘۔

اوکاسیو کورٹیز نے اخلاقی اسکینڈلز کا حوالہ دیتے ہوئے جن میں دو قدامت پسند ججز سیموئل علیٹو اور کلیرنس تھامس ملوث ہیں، کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں ہٹانے پر غور کرے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ارکان ممکنہ طور پر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ہمیں زیادہ پابند اور سخت اخلاقی ہدایات منظور کرنی ہوں گی۔ اس عمل میں وہ خود عدالت کے جواز کو تباہ کر رہے ہیں جو ہماری پوری جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

اوکاسیو کورٹیز نے بائیڈن سے امریکی سپریم کورٹ کو 13 ججوں تک بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا، جس کے بارے میں امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ اسکے لیے تیار نہیں ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جسٹس نیل گورسچ، جسٹس بریٹ کاوانوف اور جسٹس ایمی کونی بیرٹ کی تقرریوں کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کو 6-3 سے اکثریت دیے جانے کے بعدان بیانات سے ڈیموکریٹک پارٹی کی ناراضگی کی عکاسی ہوتی ہے۔

گزشتہ سال پینل کے سب سے متنازع فیصلے جسے لیٹو نے لکھا تھا، امریکہ میں تقریبا نصف صدی سے جاری وفاقی اسقاط حمل کے تحفظ کو ختم کرنا تھا۔ جمعے کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کے بعد بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عام عدالت نہیں ہے۔

ایک سروے کے مطابق 52 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ججوں نے قانون کی بنیاد کے بجائے بنیادی طور پر اپنے جانبدارانہ سیاسی نقطہ نظر کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 52 فیصد اکثریت نے کالجوں میں مثبت اقدامات ختم کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔

ریپبلکن پارٹی کے دو اہم صدارتی امیدواروں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی نے ڈیموکریٹس پر منافقت کا الزام عائد کیا ہے۔

کرسٹی نے اسٹیٹ آف دی یونین کے بارے میں کہا، “کئی دہائیوں تک ڈیموکریٹک پارٹی نے سپریم کورٹ کی حوصلہ افزائی کی جو آئین سے باہر گئی اور ماورائے آئین فیصلے کیے، میری رائے میں فیصلے فلسفیانہ سمت میں گئے جو انہیں پسند تھے۔اب، جب عدالت ایسے فیصلے کرتی ہے جو انہیں پسند نہیں ہیں، تو اچانک عدالت ’نارمل ’ نہیں رہی، انہیں (ڈیمو کریٹک )جس چیز کو دیکھنا چاہئے، وہ یہ ہے کہ قانون کا تجزیہ کیسے کرتے ہیں۔

سابق نائب صدر مائیک پینس نے فیصلے کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں بائبل پر یقین رکھنے والا مسیحی ہوں، میرا ماننا ہے کہ شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہوتی ہے اورہر امریکی کو اپنے ضمیر کے حکم کے مطابق جینے، کام کرنے اور عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک واضح لکیر کھینچی اور مذہبی آزادی کے لئے ہاں کہہ دی۔

us supreme court

impeachment