Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

گھر کی دیکھ بھال کرنے پر بیوی شوہر کی جائیداد میں برابر کی حصے دار ہے، بھارتی عدالت کا فیصلہ

خاتون خانہ بغیر معاوضے کے ہر کردار میں کام کرتی ہے، عدالت
شائع 28 جون 2023 06:45pm

جنوبی ریاست تامل ناڈو میں مدراس ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک گھریلو خاتون کو اپنے شوہر کی جائیداد میں مساوی حصہ لینے کی اجازت ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی کی ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں خاتون خانہ کو شوہر کی جائیداد کو شراکت دار بنایا ہے، حالیہ فیصلے کو خواتین کے حقوق کے حامیوں نے ایک مثبت علامت قرار دیا ہے، جس میں خواتین کے حقوق میں اضافہ ہوا ہے۔

21 جون کو جنوبی ریاست تامل ناڈو میں مدراس ہائی کورٹ نے گھریلو تنازعے کے ایک مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے جس میں خاتون خانہ کو اپنے شوہر کی جائیداد میں برابر حصہ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ کسی بھارتی عدالت نے شوہر کی وراثت میں خاتون کی شراکت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، تاہم یہ فیصلہ دیگر ریاستوں میں اس وقت تک پر قابل عمل نہیں ہوسکتا جب تک ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ بھی مستقبل میں اس طرح کا فیصلہ نہیں کردیتی۔

کیس کا پس منظر

یہ کیس بھارتی ریاست تامل ناڈو کے جوڑے کا تھا جن کی 1965 میں شادی ہوئی تھی، اور 1982 میں شوہر ملازمت کی تلاش میں سعودی عرب چلا گیا تھا، جب کہ خاتون بھارت میں ہی تھی اور اس کے اپنے ذرائع آمدن نہیں تھے، تاہم اس نے شوہر کی جانب سے بھی گئی رقم سے متعدد جائیدادیں بنائیں اور زمینیں اور زیورات بھی خریدے۔

خاتون کا شوہر 1994 میں سعودی عرب سے لوٹا تو اس نے اپنی اہلیہ پر الزام عائد کیا کہ اس کی بیوی اس کی بھیجی گئی رقم سے بنائی تمام جائیدادوں پر اکیلے ہی ملکیت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اپنے طلائی زیورات بھی چھپا رہی ہے۔

شوہر نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس کی بیوی کے ایک شخص سے مبینہ تعلقات تھے اور میری بیوی اس شخص کو پاور آف اٹارنی دے کر اثاثے فروخت کرنا چاہتی تھی۔

مقدمے میں 5 اثاثوں کا ذکر کیا گیا، جن میں 4 جائیدادیں خاتون کے نام پر خریدی گئی تھیں ان میں ایک زمین اور ایک گھر بھی شامل تھا، جب کہ پانچواں اثاثہ سونے کے زیورات اور وہ ساڑھیاں تھیں جو شوہر نے اپنی بیوی کو تحفے میں دی تھیں۔

شوہر کی جانب سے 1995 میں ٹرائل کورٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ان تمام 5 اثاثوں کی ملکیت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

شوہر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تمام اثاثے اس کے پیسوں سے خریدے گئے تھے اور اس نے خاتون کو صرف ٹرسٹی کے طور پر رکھا تھا۔

2007 میں شوہر کا انتقال ہو گیا تاہم اس کے بچوں نے بھی عدالت میں یہی دعویٰ پیش کیا۔

عدالت کا فیصلہ

عدالت نے اس کیس کے فیصلے میں کہا کہ خاتون نے گھریلو کام کاج کرکے فیملی اثاثے حاصل کرنے کے لئے برابر حصہ ڈالا، شوہر یا بیوی کی طرف سے فیملی اور بچوں کی نشو ونما و خدمت اور دیکھ بھال کے ذریعہ دیئے گئے عطیات کا مطلب یہ ہے میاں بیوی دونوں اپنی مشترکہ کوششوں سے جو کچھ بھی کماتے ہیں اس کے مساوی حقدار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ جائیداد کس کے نام پر خریدی گئی، بلکہ شریک حیات خاندان کی دیکھ بھال اور خدمت کرتا تھا وہ ان میں برابر کا حقدار ہوگا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ خاتون کی گھریلو مزدوری نے بالواسطہ طور پر رقم کمانے میں حصہ ڈالا جس سے اثاثوں کی خریداری ممکن ہوئی، اور اس کے اس کام نے شوہر کو بے فکر ہو کر ملازمت کی اجازت دی۔

عدالت نے کہا کہ بیوی 24 گھنٹے کبھی باورچی تو کبھی فیملی ڈاکٹر تو کبھی خزانچی بن کر کام کرتی ہے، اگر گھریلو خاتون نہ ہو تو شوہر کو ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لئے کسی کو بھی ادائیگی کرنی ہوگی، لیکن ایک بیوی یہ تمام سرانجام دینے کر گھر میں پرسکون ماحول فراہم کرتی ہے اور ایک گھرانے کے لئے اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ یقینی طور پر یہ مفت کا کام نہیں ہے، لیکن بیوی چھٹیوں کے بغیر 24 گھنٹے یہ کام کرتی ہے، شوہر کے صرف 8 گھنٹے کام کرکے کمانے سے بیوی کی محنت کو کم نہیں کہا جا سکتا۔

عدالت نے مزید کہا کہ جب کوئی خاتون شادی کے بعد اپنی نوکری چھوڑ دیتی ہے تو اسے اکثر ’ناقابل برداشت مشکلات‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں اس کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہوتی، حالانکہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر گھریلو خاتون کے تعاون کو تسلیم کرتا ہو، لیکن ایسا بھی کوئی قانون نہیں ہے جو جج کو اسے تسلیم کرنے سے روکتا ہو۔

Indian Court

Shareholder in property