آئی ایم ایف سے پاکستان کو کتنی رقم ملے گی؟ دو آپشنز پر غور
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ایک نئے قلیل مدتی اسٹینڈ بائی انتظام پر بات چیت جاری ہے، جو ممکنہ طور پر نئی حکومت آئندہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران ملک میں سیاسی منتقلی کے بعد کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ قلیل مدتی انتظام چھ سے نو ماہ تک کیلئے ہوگا جس سے ممکنہ طور پر تقریباً ڈھائی ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔
حکومت کی جانب سے اکتوبر 2022 سے زیر التوا فنڈز کا اجرا نہ ہونے کے باوجود نویں جائزے کی تمام شرائط پوری کی جاچکی ہیں، اس کے علاوہ دسویں اور گیارہویں اقساط سے متعلق پیشگی کارروائیوں کو بھی پورا کیا جاچکا ہے۔
دونوں فریقین (پاکستان اور آئی ایم ایف) کے درمیان دو آپشنز زیر بحث ہیں اور مذکورہ بالا ان میں سے ایک ہے۔
دو آپشنز میں نویں جائزے کے تحت ایک ارب ڈالر کا اجراء شامل ہے، لیکن جب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری دے دی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی دو اقساط کے اجراء کے امکان کے بغیر پروگرام ختم ہوگیا ہے۔
تاہم حکومت کے لیے یہ ترجیحی آپشن نہیں ہے کیونکہ اس طرح پاکستان، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے منظور کردہ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے کوٹے سے محروم ہو جائے گا۔
زیر غور دوسرا آپشن یہ ہے کہ آئندہ 15 روز (جولائی کے وسط تک) کے اندر نویں جائزے (ایک ارب 10 کروڑ ڈالر) کے مساوی اجراء کے ساتھ ایک نئے قلیل مدتی انتظام میں داخل ہوں، جس کے بعد 50، 50 کروڑ ڈالر کے 2 مزید جائزے کیے جائیں۔
اس سے مارکیٹس میں استحکام کا پیغام جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت دو ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنی مدت پوری کر لے گی اور انتخابات کے بعد نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک اس کی جگہ نگراں سیٹ اَپ نے لینی ہے۔
دونوں آپشنز کے لیے دونوں فریقین کو اعتماد سازی کے لیے 30 جون تک عملے کی سطح کے معاہدے کا اعلان کرنا ہوگا جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری آئندہ ہفتے یا اس کے بعد مل سکتی ہے۔
باخبر ذرائع نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے لیے ترجیح یہ ہے کہ ڈھائی ارب ڈالر کی پوری رقم کو محفوظ کیا جائے، حکام نے اسٹینڈ بائی انتظام کے لیے بھاری رقم رکھی تھی لیکن شاید یہ بہت زیادہ مانگ رہے تھے‘۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو آنے والے قیمتوں کے جائزے میں پیٹرولیم لیوی میں 5 روپے فی لیٹر تک اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے، تاکہ سال کے لیے پیڑولیم لیوی کو کم از کم اوسطاً 55 روپے فی لیٹر کیا جا سکے اور یکم جولائی سے بجلی کے بنیادی نرخوں کو 5 سے 8 روپے فی یونٹ بڑھانے کے لیے تیز رفتار ریگولیٹری عمل کا عہد کریں چاہے اس کی منظوری میں چند ہفتے لگ جائیں۔
اسی دوران پاکستان کو آئندہ چند روز میں دوست عرب ممالک کی جانب سے مالی سال کے اختتام پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی توقع ہے۔
ان آپشنز پر عملے کی سطح پر بات چیت ہوئی، اور وزیراعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان حالیہ بیک ٹو بیک رابطوں کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں منگل کی صبح کی گئی ایک ٹیلی فون کال بھی شامل ہے۔
ایک حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ’ ہم نے سختی سے ناصرف نویں جائزے کی شرائط پوری کی ہیں بلکہ نظرثانی شدہ بجٹ کے ساتھ دسویں اور گیارہویں جائزے کی شرائط بھی پوری کردی گئی ہیں اور اب (پاکستان) پورا بقیہ منظور شدہ کوٹہ حاصل کرنے کا مستحق ہے’۔
حکومتی عہدیدار نے مزید کہا کہ دونوں فریقین نے نویں جائزے کی تکمیل کے لیے چند روز قبل اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی ایک یادداشت (ایم ای ایف پی) کا تبادلہ بھی کیا تھا۔
تاہم فنڈ کے قوانین کے تحت جائزے فوری نہیں کیے جاتے، خاص طور پر جب پروگرام کی ایک سال کی توسیع 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اور اس کی وضاحت کرسٹالینا جارجیوا نے پیرس میں وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی کی تھی۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کی جانب سے پالیسی اقدامات کی تیزی سے تکمیل کو تسلیم کیا ہے۔
آخری پالیسی فیصلہ جو پاکستان نے ہچکچاہٹ کے ساتھ کیا وہ تھا مرکزی بینک کی شرح سود میں اچانک اضافہ، جو اب تک کی بلند ترین سطح 22 فیصد پر ہے، حالانکہ فنڈ کا عملہ چاہتا تھا کہ یہ 23 فیصد ہو۔
اس سے قبل آئی ایم ایف کے عملے نے 9 جون کو پیش کیے گئے اصل بجٹ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
لیکن اب عالمی مالیاتی فنڈ نے تصدیق کی ہے کہ نظرثانی شدہ بجٹ بشمول اضافی ٹیکس، اخراجات میں کٹوتی، ترسیلات زر کے لیے ایمنسٹی اسکیم کے خاتمے وغیرہ نے پروگرام کی ضروریات کو پورا کردیا ہے۔
Comments are closed on this story.