یونان کشتی حادثہ، حمید اللہ تین سالہ بیٹے کو لے کر نئی زندگی بنانے یورپ جا رہا تھا، بھائی
کشتی حادثے میں ممکنہ طور پر جاں بحق ہونے والے پاکستانی حمیداللہ آفریدی کی درد ناک کہانی سامنے آئی ہے، جس میں وہ اپنے 3 سالہ بچے کے ساتھ لاپتہ ہوگئے ہیں۔
الجزیرہ نے یونان کشتی حادثے میں لاپتہ اور جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے بات کی ہے، جس میں ایک پاکستانی حمیداللہ بھی ہے جو اپنے تین سالہ بیٹے کے ساتھ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے یونان جارہا تھا اور بدقسمتی سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
حمیداللہ کے بھائی نعیم آفریدی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی اپنے بھائی سے آخری بات 12 جون کو ہوئی تھی جب وہ لیبیا سے یورپ جانے والی کشتی پر سفر کر رہا تھا۔
نعیم نے بتایا کہ حمید اللہ نے مجھ سے کہا کہ فکر نہ کرو، میں یورپ سے صرف 8 یا 9 گھنٹے کی دوری پر ہوں، جب میں وہاں پہنچ جاؤں گا تو دوبارہ رابطہ کروں گا۔
نعیم آفریدی کا کہنا تھا کہ جب میں نے یونان کے قریب جہاز کے تباہ ہونے کی خبر پڑھی تو مجھے لگا جیسے میری روح پرواز کرگئی ہے، اس دن سے میں اپنے بھائی کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوں، ابھی تک اس کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق بھی نہیں ہوئی ہے، لیکن اتنے دن گزر جانے کے بعد خدشہ ہے کہ حمید اللہ اور اس کا تین سالہ بیٹا آفاق احمد ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں جو اس حادثے میں موت کا شکار ہوگئے۔
نعیم آفریدی کا کہنا تھا کہ حمید اللہ کی بیوی کو ایک سال پہلے قتل کردیا گیا تھا، اور اسے اپنے بیٹے کی جان کا بھی خطرہ تھا، اس لئے اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک محفوظ اور زیادہ مستحکم مستقبل کی تعمیر کی امید میں پاکستان چھوڑا تھا۔
نعیم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان چھوڑنے کی بہت سے وجوہات ہیں اور ان میں سب سے بڑی وجہ قانون کی حکمرانی نہ ہونا بھی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ابھی تک کی خبروں کے مطابق کشتی حادظے میں 385 پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں لیکن یہ صرف 385 لوگوں کی موت نہیں ہے، یہ 385 خاندان ہیں جو مکمل طور پر تباہ اور ناامید ہیں۔
نعیم نے بتایا کہ اس کی اپنے بھائی سے طویل گفتگو ہوئی اور انہیں لگا کہ یورپ جانے کے لیے واحد راستہ کشتی پر سفر ہی ہے۔
واضح رہے کہ پیلوس کے ساحل پر ڈوبنے والے جہاز میں 750 افراد لیبیا سے اٹلی کی جانب سفر کررہے تھے، اور ان میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی، جب کہ درجنوں کا تعلق شام، مصر اور فلسطین سے تھا۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کے مطابق جہاز میں تقریبا 350 پاکستانی سوار تھے، جب کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے اب صرف 104 زندہ بچ جانے والے اور 82 جاں بحق افراد کی تصدیق کی ہے، اور 10 دن گزر جانے کے بعد بھی اب تک 500 افراد لاپتہ ہیں۔
عبدالجبار نے بھی دو جوان بیٹوں کے روشن مستقبل کی امید میں موت کو گلے لگا لیا
الجزیرہ نے آزاد کشمیر کے علاقے کوٹلی سے یونان کا سفر کرنے والے عبدالجبار کے بھائی سعید انور سے بات کی۔
سعید انور نے بتایا کہ میرا بڑا بھائی عبدالجبار بہت نرم دل اور خوش مزاج تھا ہر کوئی اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔
عبدالجبار کے ساتھ ان کے تین کزن ساجد یوسف، اویس آصف اور توقیر پرویز نے بھی روشن مستقبل کے لئے اپنا گاؤں چھوڑ دیا، لیکن حادثے کے بعد سے ان کے اہل خانہ اب سوگ میں ہیں۔
عبدالجبار نے اپنی آخری گفتگو میں کہا کہ میرے لیے دعا کریں کہ میں بحفاظت اپنی منزل پر پہنچ جاؤں، میرے گھر والوں اور بالخصوص میری دونوں جوان بیٹیوں کا خیال رکھنا۔ انور کے مطابق عبدالجبار کی بیوی تیسرے بچے کی امید سے ہے۔
عبدالجبار کے چچا رمضان جرال کا الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عبدالجبار اور اس کے کزن غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑ کر گئے تھے۔
رمضان جرال نے ویڈیو کال پر چھت کے بغیر گھر دکھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اس گھر کی چھت ڈالنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔
عبدالجبار کے چچا نے بتایا کہ جب وہ لیبیا میں کشتی کی روانگی کا انتظار کر رہا تھا تو اکثر واٹس ایپ پر اپنے اہل خانہ سے بات کرتا تھا، اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس سفر سے خوفزدہ ہے لیکن ایک امید اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
رمضان جرال کا کہنا تھا کہ جب اہل خانہ نے جہاز کے تباہ ہونے کی خبر سنی تو وہ صدمے سے دوچار ہو گئے، انہیں اپنے پیاروں کے جدا ہونے کے غم کے ساتھ یہ بھی فکر ہے کہ وہ اب اتنی بڑی رقم کیسے ادا کریں گے جو یورپ جانے کے لئے قرض لیا تھا۔
جرال کا کہنا تھا کہ جب بھی فون کی گھنٹی بجتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ شاید کوئی اچھی خبر مل جائے، ہم ہر لمحہ تکلیف سے گزر رہے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو بھی اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔
Comments are closed on this story.