آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان قرضے نہیں اتارسکتا، سابق چیئرمین ایف بی آر
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے باجود پاکستان بیورونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہی حقیقت ہے۔
”آج نیوز“ کے پروگرام آج ایکسکلوژو“ میں بات کرتے ہوئے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس صرف 38 دن رہ گئے ہیں، اور حکومت کے اقدامات معیشت کے حوالے سے نہیں ہیں، بجٹ میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس میں آئی ایم ایف نے سب سے بڑا اعتراض ایمنسٹی اسکیم پر کیا تھا۔
شبر زیدی نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں آئی ایم ایم کے پروگرام کےبعد پاکستان مشکلات سے نکل جائے گا، لیکن اس کے برعکس آئی ایم ایف کے پروگرام کے باجود پاکستان بیورونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت نہیں رکھتا، چاہے اس کے بعد بھی پروگرام آجائے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ملنے سے پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا، بلکہ ملکی قرضے اتارنے کے لئے ہمیں ان قرضوں کو ری پروفائل کرانا پڑے گا، یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، وزیرخزانہ بھی اس حقیقت سے آشنا تھے۔
شبر زیدی نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ آنے والی کوئی بھی حکومت معاشی حالات میں عام آدمی کےلئے بہتری لائے گی تو ہم لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں، یہ ناامیدی نہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں کتابوں میں لکھی ہوتی ہیں، اور آئی ایم ایف جب بھی پاکستان آیا اس نے یہی کہا کہ پالیسی ریٹ اور ایکسیچینج ریٹ کو اسی طریقہ کار سے چلائیں جس طرح کتابوں میں لکھا ہے، ہم نے وہی کیا اور پالیسی ریٹ کو 21 فیصد پر لئے گئے، اور ایکسیچینج کو فری کیا، جو کرنا بھی چاہئے۔
شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام بیرونی سرمایہ کار افراد میرے کلائنٹ ہیں، اور یہ جب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آتے ہیں تو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کب آنا ہے اور کب واپس جانا ہے، اس وقت پاکستان کسی بیرونی سرماریہ کار کے لئے سازگار نہیں ہے، 300 روپے کے ڈالر پر بیرونی سرمایہ کاری کی بات کرنا بے وقوفی والی بات ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اصلاحات اس نظام میں ہوتی ہیں جو نظام چل رہا ہو، جہاں نطام ہی نہ چل رہا ہو تو اصلاحات نہیں ہوتیں بلکہ سب توڑ کر نیا بنانا پڑتا ہے، موجودہ شکل میں ملک معاشی طور پر نہیں چل سکتا، میں نے چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ اسی لئے چھوڑا تھا کہ 23 ہزار بندوں میں سے 15000 بندے رشوت لے رہے ہیں اور لوگوں کو تنگ کررہے ہیں، اور یہ تمام ذمہ داری مجھ پر آرہی ہے اور میں اس حرام خوری کی ذمہ داری نہیں لے سکتا تھا۔
شبر زیدی نے مزید کہا کہ چارٹر آف اکنامی کا لفظ سب سے پہلے میں نے استعمال کیا، اگر حل نکالنا ہے تو معیشت سے کھیل کھیلنا بند کریں، 18 ویں ترمیم کے بعد بھی اسلام آباد میں 62 وزارتیں ہیں، اور یہ تمام لوگ وقت ضائع کررہے ہیں، تو حکومت کیسے چلے گی، یہ لوگ فائل چلانے کے لئے نہیں بلکہ فائل روکنے کے لئے بیٹھے ہیں تاکہ کام نہ ہو۔
سابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اس وقت جس شکل میں ہے اس شکل میں یہ ملک معاشی طور پر نہیں چل سکتا، پاکستان تمام حکمران بشمول اسٹیبلشمنٹ ذاتی مفاد کو دیکھتے ہیں، وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے پاکستان کو اگلے 25 سال میں کہاں لے کر جانا ہے، 1947 سے یہ ملک ایڈہاک بنیاد پر چل ہے۔
Comments are closed on this story.